جہا دکی دو
قسمیں ہیں جہاد کی ایک قسم ’’دفاع ‘‘ہے جس کو دفاعی جہاد کہتے ہیں، یعنی کافروں کی
کوئی قوم ابتداء ً مسلمانوں پر حملہ آور ہو تو ،مسلمان اس کی مدافعت کیلئے ان کا
مقابلہ کریں ،جہاد کی اس قسم کو حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا
ہے۔
وَقَاتِلُوْا
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا اِنَّ
اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْن
(سورۃ
بقرہ ، آیت نمبر۱۹۰)
اور
قتال کرو خدا کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی مت کرو
،تحقیق اﷲ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اُذِنَ
لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِ
ہِمْ لَقَدِیْرُنِ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِحَقٍّ اِلَّا
اَنْ یَّقُوْلُوارَبُّنَااﷲُ (سورہ حج، آیت نمبر ۳۹
، ۴۰)
مسلمانوں
کو ان کافروں سے جہاد و قتال کی اجازت دی گئی جو کافر مسلمانوں سے لڑتے ہیں اس وجہ
سے کہ مسلمان ستم رسیدہ ہیں اور بے شک اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد پر قادر ہے یہ
مسلمان اپنے گھروں سے محض بے وجہ نکالے گئے سوائے اس کے کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ یہ
کہتے تھے کہ ہمارا پروردگار ایک اﷲ ہے۔
جہاد کی دوسری
قسم ‘‘اقدامی جہاد’’ ہے یعنی جبکہ کفر کی قوت اور شوکت سے اسلام کی آزادی کو خطرہ
ہو تو ،
ایسی حالت میں
اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ، تم دشمنانِ اسلام پر جارحانہ حملہ
اوردشمن کی طرف پیش قدمی کرو،کیونکہ جب دشمنوں کی طرف سے خطرہ ہوتو احتیاط اور
حفظِ ماَتَقدّمَ کا تقاضایہی ہے کہ، تم ان پر جارحانہ اقدام کرو ،تاکہ اسلام اور
مسلمان کفر اور شرک کے فتنہ سے محفوظ ہوجائیں اور بغیر کسی خوف و خطرہ کے امن و
عافیت کے ساتھ خداوند تعالیٰ کے احکامات کو بجالاسکیں اور کوئی قوت و طاقت ان کو
ان کے سچے دین سے نہ ہٹا سکے، اور نہ پھیر سکے
اور نہ کوئی
طاقت قانونِ خداوندی کے اجراء اورنفاذ میں رکاوٹ بن سکے۔
ایسے موقع پر
عقل اور فراست، تدبیر اور سیاست کا یہی مقتضٰی ہے کہ ،خطرہ کو پیش آنے سے پہلے ہی
ختم کر دیا جائے۔ اس انتظار میں رہنا کہ جب خطرہ سر پر آجائے گا اس وقت مدافعت
کریں گے یہ اعلیٰ درجہ کی حماقت اور بیوقوفی ہے ۔جس طرح شیر اور چیتا کو حملہ کرنے
سے پہلے ہی قتل کردینا اورسانپ اور بچھوکے کاٹنے سے پہلے ہی سر کچل دینا ظلم نہیں
،بلکہ اعلیٰ درجہ کی تدبیر اور انجام بینی ہے۔ اسی طرح کفر وشر کا سر اٹھانے سے
پہلے ہی سر کچل دینا اعلیٰ درجہ کی تدبیر ہے۔
چور و ڈاکو اور
درندے اگر کسی جنگل اور بیابان میں جمع ہوں تو دانائی اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ
قبل اس کے کہ وہ شہر کا رخ کریں ان کو آبادی کا رخ کرنے سے پہلے ہی ختم کردیا جائے
،کیوں کہ درندوں کے قتل میں اقدام ہی عقل اور دانائی ہے اور
فَاقْتُلُوْا
الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَد تُّمُوْھُمْ(سورۃ توبہ، آیت نمبر۵)
(اور
قتل کرو مشرکین کو جہاں تم ان کو پاؤ)
اور
اَیْنَمَا ثُقِفُوْا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوا تَقْتِیْلًا (سورۃ احزاب ، آیت نمبر ۶۱)
(اور
جہاں وہ ملیں ان کو پکڑا جائے اور قتل کر دیا جائے )
میں اس قسم کے
کافر مراد ہیں۔ درندوں کے قتل میں دفاع کا تصور کرنا اور یہ سوچنا کہ جب یہ درندے
مل کر ہم پر حملہ آور ہوں گے، اس وقت ہم ان کی مدافعت کریں گے ،اس قسم کا تصور اہل
ِعقل کے نزدیک کھلی حماقت اور نادانی ہے،
حق تعالیٰ شانہ
کے اس ارشاد
وَقَاتِلُوْاھُمْ
حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ (سورۃ انفال
، آیت نمبر۳۹)
یعنی
اے مسلمانو! تم کافروں سے یہاں تک جہاد و قتال کرو کہ کفر کا فتنہ باقی نہ رہے اور
اﷲ کے دین کو پورا غلبہ حاصل ہوجائے۔
میں اسی قسم کا
جہاد مراد ہے۔
اس آیت میں
فتنہ سے کفر کی قوت اور شوکت کا فتنہ مراد ہے اور
وَیَکُوْنَ
الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہ (سورۃ انفال ، آیت نمبر۳۹)
سے دین کا ظہور
اور غلبہ مراد ہے ،جیسا کہ دوسری آیت میں ہے
‘‘لِیُظْہِرَہٗ
عَلٰی الدِّیْنِ کُلِّہ’’(سورۃ صف ، آیت نمبر۹)
یعنی دین کو
اتنا غلبہ اور قوت حاصل ہوجائے کہ کفر کی طاقت سے اس کے مغلوب ہونے کا احتمال باقی
نہ رہے اور دین اسلام کو کفر کے فتنہ اور خطرہ سے بالکلیہ اطمینان حاصل ہوجائے۔
(سیرت المصطفیٰ
ج ۲)