جمہوریت عوام کی عوام کے اوپر حاکمیت کو کہتے ھیں. اب یہ تعریف جمھوریت کیلئے ماھیت اور حقیقت سمجھا جائےگی ماھیت کا مطلب یہ ھے کہ "مابه الشيء"ھو جسکا حاصل مطلب یہ ھے کہ جس کے بغیر وہ چیز وہ نہی ھو سکتی،دیگر تفصیلات یہاں مطلوب نہی ھیں کہ کسی چیز کا وہ چیز ھونا اور اسکا موجود ھونا الگ الگ چیزیں ھیں یا ایک چیزـ یعنی مطلب یہ ھے کہ عوام کو قانون ساز ماننے کے بغیر جمھوریت، جمھوریت نہی سمجھی جائیگی ـ.
اب چونکہ ھمارا دعوی یہ ھے کہ جمھوریت ماھیت(عوام کی حکومت) کے بغیر جمھوریت نہی سمجھی جائیگی. تو اب ھم یہ بھی ثابت کریں گے کہ پاکستان میں جو اسلامی جمھوریت ھے، یہ بھی عوام کی حاکمیت کے بغیر نہی لیکن اس سے پہلے آپکو یہ ماننا پڑےگا کہ جمھوریت کی جو دو قسمیں آپ بناتے ھیں مغربی و اسلامی یہ دراصل آپکی نزیک دو قسمیں جمھوریت کی اس سے آپ تنزل نہی کر سکتے کہ اسلامی جمھوریت مطلق جمھوریت کی ایک قسم نہی بلکہ آپ مانتے بھی ھیں اور ماننا بھی پڑےگا کہ اسلامی جمھوریت مطلق جمھوریت کی ایک قسم ھے.
ـــــــ
اب اسلامی جمھوریت جو مطلق جمھوریت کی ایک قسم بن گئ تو اسمیں ماھیت(یعنی عوام کی حاکمیت اور عوام کی قانون سازی کا حق) لازماً ھوگی "اگر نہی ھوگی تو پھر یہ جمھوریت نہی رھےگا". مثلاً جسطرح انسان جو حیوان کے انواع میں سے ایک نوع ھے اور حیوانی ماھیت کے بغیر اسکا وجود ناممکن ھے،یعنی ایسا نہی ھوسکتا کہ انسان کا ایک فرد بھی ایسا موجود ھو جس میں حیوانیت نہ ھو، اسی طرح اسلامی جمھوریت جو جمھوریت کا ایک نوع ھے اسکا وجود بغیر ماھیت جمھوری (عوام الخ) ناممکن ھے، اور جب وہ ماھیت(عوام کی حاکمیت) ادھر موجود ھے تو جمھوریت کیسے اسلامی ھوگی؟ حالانکہ اس نے قانون سازی کا حق انسان کو دے کر ان تمام احکامات میں تبدیلی اور اسکے متبادل دوسرے احکامات بنانے کا جواز دیا جو کہ کفر ھے اور اسلام تو قانون سازی کا حق اللہ کو دیتا ھے اور یہ دونوں مفھومات ایک دوسرے سے الگ الگ ھیں اللہ کو مطلق قانون سازی کا حق دینا اور مخلوق کو مطلق قانون سازی کا حق دینا، ان دونوں کے درمیان نسبت تضاد کی نسبت ھے یعنی ضدین ھیں اور ضدین کبھی جمع نہی ھوسکتی .
اتنی بات سمجھ آنے کے بعد اس کے مفھومات کو دیکھیں ان دونوں کی مفھومات بلکل الگ الگ ھیں. اسلام کی اساس لا الہ الا اللہ اور ان الحکم الا للہ پر ھے،جسکا مطلب یہ ھے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود اور قانون ساز نہی، اور جمھوریت کی بنیاد ان الحکم الا للشعب پر ھے یعنی قانون سازی کا حق صرف عوام کو حاصل ھےـ اور یہ بات بھی جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی قانون ساز نہی لا الہ الا اللہ میں عبادت کا اطلاق قانون اور حکم پر بھی آتا ھے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ھیں
[ان الحکم الا للہ امر ان لا تعبدوا الا ایاہ]
عبادت کا ذکر حکم کے بعد یہ فائدہ دیتا ھے کہ یہاں پر عبادت سے مراد حکم اور قانون ھے ھمارے فقھاء میں سے مشھور فقیہ امام سرخسی رح نے اپنی مایہ ناز کتاب المبسوط میں بھی حکم کو عبادت لکھا ھے. ساتھ یہ بات بھی جان لیں کہ پاکستان ھمارے اکابر جب بناتے وقت لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگاتے تھے اسکا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان میں جو قانون ھوگا وہ اللہ کا ھوگا . ورنہ وہ کیوں قربانی دیتے ھندوستان سے آزادی کی ھندوستان میں ھر چیز میسر تھی سوائے اللہ کے قانون کےاب تک گفتگو سے اتنی بات واضح ھوگئ کہ اسلامی جمھوریت کفر ھی ھے در حقیقت بس نام سے کوئی چیز تبدیل نہی ھوتا جیسا کوئی کہہ دے اسلامی کفر اس سے کفر اسلامی نہی بنےگا بلکہ کفر کفر ھی رھےگا یا کوئی اسلامی یھودیت کہہ دے اس سے اسلامی یھودیت وجود میں آئیگی؟
بس یہ دو متضاد چیزوں کو جمع کرنا ھے. اس کو اسلامی من لیں یا کفری اور یا کوئی نئی قسم بنالیں معتزلہ کی طرح جو نہ اسلامی ھو اور نہ کفری یہ بات بھی سمجھ لیں کہ جب کوئی مقدمہ اشرف اور اخس سے مرکب ھوجائے تو اس صورت نتیجہ ھمیشہ اخس و ارذل کا تبع ھوگا یہ بات آپکو معلوم ھے بخوبی جیسے کنویں میں ایک قطرہ پیشاب گرنے سے پورا کنواں ناپاک ھوگا یہاں پر نتیجہ اخس و ارذل کا تابع ھے اسی طرح اسلام کے ساتھ شرک یا کفر کا تھوڑا سا حصہ بھی شرک ھوجائے تو کفر ھی سمجھا جائےگا یہی وجہ ھے کہ کوئی قرآن مجید کی ۶۶۶۶ آیتوں میں سے ایک آیت کا انکار کرےگا وہ بندہ کافر سمجھا جائےگا.
اگر چہ باقی پورے قرآن مجید کے ایک آیت کے علاوہ کا اقرار کرے. اگر چہ یہاں پر اقرار جوکہ (اشرف ھے) بڑے پیمانے پر موجود ھے لیکن انکار جوکہ اخس و ارذل ھے اگرچہ بہت چھوٹے پیمانے پر ھے اسکو اقرار کے مقابلے میں معتبر مانا گیاـ.
اب آپ بتائیں!
کہ اسلامی جمھوریت اسلام (جوکہ اشرف ھے) اور جمھوریت (جوکہ اخس ھے) دونوں سے مرکب ھے ناں؟ جب دونوں سے مرکب ھے تو آپ ایمان سے بتلائیےگا؟ اب اس اسلامی جمھوریت کو اسلام سمجھا جائےگا یا کفر؟
یارر کفر ھی سمجھا جائےگا اسلئے کہ اسکا مفھوم کفری ھے اور اس لئے کہ جمھوریت "اسلام کے علاوہ ایک دوسری چیز ثابت ھوئی اور اسلام کے علاوہ تو کفر ھی ھےــ .
{فَمَاذا بعد الحقّ الا الضلال}
جمہوری نظام میں اجتماعی دینی احکام
جمہوری نظام میں اجتماعی دینی احکام کا وجود چلتا ہی نہیں. انفرادی دینی احکامات کی آزادی تو جمہوری اصولوں میں شامل ھے، ڈونلڈ ٹرمپ بھی انفرادی دینی احکام نماز،روزہ،حج،زکوۃ کو احترام کے نظر سے دیکھتا ھے......!
باقاعدہ رمضان کے اوائل میں مسلم قوم کو مبارکباد دیتا ہے، بلکہ باقاعدہ وائٹ ہاؤس میں افطاری بھی دیتے تھے۔اور ہر سال تقریبا ایسا ہوتا رہتا ہے۔ زیرو پوائنٹ میں بھی مسجد کی تعمیر کا اجازت ھوتا ھے، بالعکس اسلام آباد میں ھندوؤں کیلئے مندر کی اجازت،سکھوں کیلئے گردواروں کی اجازت.... ان سب کا جمہوریت سے کوئی تضاد ہی نہیں.......!
مگر اجتماعی دین حدود،قصاص،رجم،کوڑے لگانا،یہ جمہوری نظام میں ممکن ہی نہیں......! اور جب جمہوریت نے اپنے غلبے کا سکہ چمکا دیا تو سیکولرزم کے علمبرداروں نے اپنے دعوت کو اتنا مستحکم انداز میں آگے نشر کیا کہ مسلمانوں کے اذھان میں بھی یہی اعتراضات اٹھنے لگے کہ اسلام موجودہ جدید عصر میں مکمل نافذ العمل ٹہرانا مشکل کام ھے۔۔۔۔۔۔!
زانی کو رجم کرنا،
حد الحرابہ قائم کرکے ہاتھ پاؤں مخالف سمت میں کاٹنا،
مرتد کو قتل کرنا،
جذیہ مقرر کرنا،
کفار سے نفرت کرنا،
ملت ابراھیم پر چل کر اظہار عداوت و بغض کرنا،
یہ سب مسلمانوں ہی کے اذھان میں عملا کرکے دکھانا مشکل ھوگیا.....
یہاں تک کہ مدارس میں غلاموں کے مباحث پڑھنا تک چھوڑ گئے.......!!!
اور ان سب کا کریڈٹ اس دجالی جمہوری نظام کے سر ھے۔
جب تک جمہوریت اپنے آب وتاب سے چمکے گا
اجتماعی دین کا قیام و نفاذ صرف ایک خواب ہی ھوگا
اور رفتہ رفتہ اذھان سے نسیا منسیا ہوتا چلےگا
یہاں تک کہ آنے والا نسل اسلام کو صرف بعض رسومات کا مجموعہ سمجھ کر مانےگا۔۔۔۔۔۔
لھذا حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے خوب جمہوری نظام کے خباثت کو امت کے سامنے بیان کرنا چاہئیے
ورحمۃ ربک خیر مما یجمعون