اس وقت مجاہدینِ اسلام کی تعداد لاکھوں میں ہے، مگر پھر بھی فتح ان کو کیوں نہیں ہوتی ؟جبکہ حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان بارہ ہزار کی تعداد میں ہوں،تو کبھی بھی تعداد کے تھوڑا ہونے کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو سکتے۔
حضرت عبداﷲ بن
عباسؓ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک نے ارشادفرمایا
‘‘خَیْرُ
الصَّحَابَۃِ اَرْبَعَۃ ٌوَّخَیْرُ السَّرَایَا اَرْبَعُ مِا ئَۃٍ وَّخَیْرُ
الْجُیُوْشِ اَرْبَعَۃُ اٰلَافٍ وَّلَنْ یَّغْلِبَ اثْنَاعَشَرَاَلْفًامِّنْ
قِلَّۃٍ’’
( مشکٰوۃ
شریف ، کتاب آداب السفر) )
بہترین رفیق
اور ساتھی چار ہیں اوربہترین چھوٹا لشکر چار سو کا ہے، اور بہترین بڑا لشکر وہ ہے
جسکی تعداد چار ہزار ہو اور بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے شکست نہیں کھا سکتا ۔
اس وقت
مجاہدینِ اسلام کی تعداد لاکھوں میں ہے، مگر پھر بھی فتح ان کو کیوں نہیں ہوتی
؟جبکہ حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان بارہ ہزار کی تعداد میں ہوں،تو کبھی بھی تعداد
کے تھوڑا ہونے کی وجہ سے مغلوب نہیں ہو سکتے۔
جواب نمبر ۱ :
اسلام اور کفر
کے مابین جاری جنگ بھی تو، آخرایک جنگ ہی ہے اور جنگ کے بارے میں ایک اصول یاد
رکھئیے کہ
‘‘ اَلْحَرْبُ
سِجَالٌ’’
یعنی جنگ
کنوئیں کے ڈول کی مانند ہے کہ، کبھی ایک فریق تو کبھی دوسرا فریق کھینچتا ہے
۔ہمیشہ ایک ہی شخص اسکو نہیں کھینچتا اور یہ وہ اصول ہے، جسکو غزوہ احد میں کفار
کے سردارابوسفیان ( جو کہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے )،
مسلمانوں کو عارضی شکست کے بعد دھراتے ہوئے کہا تھا ۔
‘‘یَوْمٌ
بِیَوْمِ بِبَدْرٍ وَّالْحَرْبُ سِجَالٌ’’
کہ آج کی ہماری
فتح بدر کی شکست کے بدلہ میں ہے، اور جنگ تو ڈولوں کی مانند ہے کبھی اوپر کبھی
نیچے۔
اسکے علاوہ بھی
ابو سفیان نے کچھ جملے اور نعرے لگا ئے تھے، جن کا حضرت پاک نے جواب دلوایا تھا،
مگر اس جملہ کا جواب نہ دیا،اورنہ ہی دلوایا ۔ اسکی وجہ حضرت
مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ سیرت ا لمصطفٰی ج ۳ میں
تحریر فرماتے ہیں کہ ابو سفیان کا قول ‘‘اَلْحَرْبُ سِجَالٌ’’ چونکہ
حق تھا، اس لئے اس کا جواب نہیں دیا
اور حق تعالیٰ
کا یہ ارشاد
‘‘ تِلْکَ
الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ’’ اس کا مؤید ہے ۔
اس لئے کسی بھی
معرکہ میں مسلمانوں کی شکست کا ہو جانا بھی اسی اصول کے تحت ہی دیکھا جانا چاہیئے۔
فائدہ:
اس اصول ‘‘اَلْحَرْبُ سِجَالٌ’’کو
معمولی نہ سمجھیں کیو نکہ یہ تو اب حدیث تقریر ی سے ثابت ہو گیا ہے اور حجت کا
درجہ رکھتا ہے ۔
فائدہ :
انتہائی اختصار
کے ساتھ یہ عرض ہے کہ حدیث کہتے ہیں، حضرت پاک ﷺ کے قول و فعل اور تقریر کو
۔اور تقریر کا معنی یہ ہے کہ کسی شخص نے حضرت پاک ﷺ کے سامنے کوئی کام کیا یا
کوئی بات کہی آپ نے جاننے کے باوجود اس سے منع نہ فرمایا بلکہ اسے برقرار رکھا ۔
جواب نمبر ۲ :
اس حدیث سے یہ
تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اگر بارہ ہزار کی تعداد میں ہوں، تو انکو کبھی بھی قلت
تعداد کی وجہ سے شکست نہ ہو گی ، مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ، انکو کسی اور
وجہ سے بھی شکست نہیں ہو سکتی ۔مثلا اگر اسباب رسد کو کاٹ دیا جائے، اور سامان جنگ
یعنی آلاتِ حرب و ضرب ضائع ہو جائیں ۔اور بالخصوص جبکہ مسلمان ہی انکی ٹانگیں
کھینچنے کا فریضہ انجام دے رہے ہوں، تو پھر مسلمانوں ہی کو شکست کیوں نہ ہو گی ؟
جواب نمبر ۳:
بعض اوقات
مسلمانوں کی شکست میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کچھ خاص حکمتیں ہوتیں ہیں ، جو کہ صرف
شکست کی صورت میں ہی مل سکتی ہیں نہ کہ فتح کی صورت میں مثلاً
(۱) تا کہ کھرے کھوٹے ، اور کچے پکے ، مخلص
اور غیر مخلص الگ ہو جائیں ۔
(۲)تا کہ شکستہ خاطر ہو کر اﷲ تعالیٰ کی
بارگاہ میں عاجزی ، ذلت اور مسکنت کے ساتھ رجوع کریں اور اس کے نتیجے میں حق
تعالیٰ انکو آئندہ ، عزت و فتح عطا فرمائیں۔
(۳)تا کہ مسلمانوں کے دلوں میں عجب و کبر
اور فخر پیدا نہ ہو، جس سے اﷲ تعالیٰ کی مدد و نصرت رک جاتی ہے ، جیسے غزوہ حنین
میں ہوا تھا۔
(۴)تا کہ شکست کے باوجود مسلمانوں کے حق پر
قائم رہنے سے ان کے درجات بلندہوں، اور حق تعالیٰ کا قرب خاص نصیب ہو۔
(۵)تا کہ شہادت کے شائقین اور اﷲ تعالیٰ سے
ملاقات کے خواہش مند وں کو شہادت کی نعمت نصیب ہو ۔
(۶)تاکہ اس شہادت کے نتیجہ میں مسلمانوں کے
گناہ اور خطائیں معاف ہو جائیں ۔اور پاک صاف ہو کر اﷲ تعالیٰ کے حضور پہنچیں۔
(۷)تا کہ اﷲ تعالیٰ کفار کو مٹا دے، کیو
نکہ جب اﷲ تعالیٰ کے بندگانِ خاص کی خونریزی ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ کی غیرت جوش
مارتی ہے، اور اپنے مخصوص بندوں اور دوستوں کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتے
ہیں ۔
(۸)تا کہ کفار مزید دلیری ، نازو غرورکے
ساتھ میدان میں آئیں اور ہمیشہ کے لئے دنیا سے فنا ہو جائیں ۔
(۹)تا کہ یہ ثابت ہو جائے کہ اﷲ تعالیٰ کی
سنت یہ ہے کہ وہ دلوں کو پھیر دیتے ہیں کبھی دوستوں کو اور کبھی دشمنوں کو فتح
دیتے ہیں ۔
مگر آخر کار
نتیجہ اور انجا م کار میں فتح تو اہل ِحق کو ہی نصیب ہوتی ہے ۔اﷲتعالیٰ فہمِ سلیم
سے نواز دیں ، آمین یَارَبَّ الْعٰلَمِیْن۔
شکستِ فاش بھی
ہوجائے ممکن ہے ہزاروں کو،
وہ محبوب
آزماتا ہے خود اپنے جانثاروں کو،
کبھی تو فتح و
نصرت سے کبھی شوقِ شہا دت سے،
عطا کر تا ہے
مولیٰ کا مرانی اپنے پیا روں کو،
تنبیہ :
اس لئے میرے
بھائیو ،دوستو، بزرگو! گزارش ہے کہ یہ اور ان جیسی دیگر احادیث کو سمجھنے کی کوشش
کریں اور سمجھ میں نہ آئیں تو کسی صاحب علم سے رابطہ فر مائیں ۔
‘‘ فَاسْئَلُوْااَھْلَ
الذِّکْرِاِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ’’ (سورۃ الا نبیاء ، آیت نمبر۷)
مگر خدارا شرم
و حیاء فرمائیں، اور نا سمجھی کی وجہ سے مجاہدین اور جہاد پر اعتراض کر کے کفار کی
پشت پناہی نہ کریں، اور نہ ہی اپنی آخرت برباد کریں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں فکر آخرت کی
توفیق سے نوازیں۔
آمین یَارَبَّ
الْعٰلَمِیْن۔
گزارش:
اگر کبھی کسی
محاذ سے مسلمانوں کی شکست کی خبریں موصول ہوں، تو اسکی وجہ سے مجاہدین کے اعمال
ِصالحہ میں کیڑے نہ نکالے جائیں، بلکہ اپنے گریبان میں نگاہِ تفکر دوڑائیے، کہ
کہیں ہماری بد بختی اور اعمال بد کی نحوست کی وجہ سے مجاہدین کو شکست کا سامنا نہ
کرنا پڑتاہو ۔نیز اس پر بھی غور کریں کہ ایسے وقت میں مجاہدین کی ہمت بندھانے کی
ضرورت ہوتی ہے، نا کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ۔اس لئے ایسے وقت میں مجاہدین
کی زیادہ سے زیادہ ہر قسم کی جانی مالی لسانی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اﷲتعالیٰ سے
مجاہدین کی فتح و نصرت اور کفار کی شکست کی دعاء کا معمول بنائیے اور اسلام کے
معمولی نقصان میں بھی اپنا نقصان سمجھیں۔
جواب نمبر ۴:
مجاہدین کی
شکستیں دیکھنے والوں کو مجاہدین ِاسلام کی تاریخی فتح ،فتحِ افغانستان بھی مد نظر
رکھنی چاہیے جہاں بے آسرا مجاہدین نے اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے دنیا کی سپر طاقت
کو زیر کر دیا ۔
‘‘فَاعْتَبِرُ
وْ یَااُولِی الْاَبْصَارِ’’(الحشر۔۲)
جواب نمبر ۵:
اور دوسرے
مقامات پر جاری جہاد کے بارے میں بھی آپ یہ تو کہ سکتے ہیں کہ، فتح میں
تا خیر ہو رہی
ہے مگر یہ نہیں کہ سکتے کہ مجاہدین کو شکست ہو رہی ہے، بلکہ شکست تو کفار کو ہو
رہی ہے جسکو وہ خود تسلیم بھی کرتے ہیں ۔