جہاد
کے لئے حکومت اور مرکز کا قیام شرط ہے ،حکومت کے بغیر جہاد بالکل جائز نہیں ہےکیو
نکہ خود حضرت پاک نے جب تک مدینہ منورہ میں حکومت اور مرکز قائم نہیں فرمایا،
اسوقت تک جہاد شروع نہیں کیا ۔
جواب نمبر ۱ :
جہاد کی دو
قسمیں ہیں اقدامی ، دفاعی ۔
اقدامی جہاد
:
اسلام کو عزت و
شو کت اور قوت حاصل ہو اور مزید فریضہ جہاد کوجاری رکھنے کے لئے مسلمانوں کا ایک
دستہ اور قافلہ کافروں کی طرف پیش قدمی کر رہا ہو ۔جہاد کی یہ قسم فرضِ کفایہ ہے۔
اسکے لئے والدین کی اجازت ، جنگ سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت اور بعض کے ہاں
طاقت کا توازن شرط ہے اسی طرح اس جہاد میں مسلمانوں کے لئے ایک مرکز اور حکومت بھی
شرط ہے اور یہ جہاد بھی ہر وقت جاری رہنا ضروری ہے اگرکسی وقت یہ جہاد موقوف ہو
گیا تو پوری امت گناہ گار ہو گی اور چند ایک کے ادا کرتے رہنے سے پوری امت اس کے
چھوڑنے کے گناہ سے محفوظ رہے گی ۔ جیسے نمازِجنازہ ۔
دفاعی جہاد :
کفار نے
مسلمانوں کے ملک پر چڑھائی کردی یا کفار نے مسلمانوں کی ایسی زمین پر قبضہ کر لیا
جو ایک گھنٹہ بھی خلافت کے زیر اثر رہی ہو تو سب سے پہلے قرب و جوار کے مسلمانوں
پر اور انکے کم ہونے یا نہ کرنے کی صورت میں دنیا کے تمام مسلمانوں پر کفار کو دفع
کر نا فرض ہو جا تا ہے اور جہاد کی اس قسم کے لئے کوئی شرط نہیں حتی کہ اسلام کی
دعوت دینا بھی شرط نہیں ،نہ ہی حکومت اور نہ ہی والدین کی اجازت شرط ہے ۔ اور بیوی
کے لئے شوہر کی اور باندی و غلام کے لئے آقا کی اجازت بھی شرط نہیں ہے ۔
آج کل پوری
دنیا میں اسی قسم کا دفاعی جہاد ہو رہا ہے ، کہیں بھی اقدامی جہاد نہیں ہو رہا ۔
اﷲ تعالی وہ وقت بھی جلد لائے کہ جب اقدامی جہاد شروع ہو ۔
جواب نمبر۲:
با قی رہا یہ
اعتراض کہ حضرت پاک ﷺ پر
اسوقت تک جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا جب تک آپﷺ نے مرکز قائم نہیں کیا اور
حکومت اسلامیہ کی بنیاد نہیں رکھی ۔ تو میری گزارش صرف اتنی ہے کہ اگر جہاد کے لئے
حکومت کی شرط کی بنیادصرف یہ ہی بات ہے تو پھر دوسرے وہ تمام احکام جو کہ اسوقت
نازل ہوئے جب حضرت پاک ﷺ
مرکز اور حکومت ِاسلامیہ کی بنیاد رکھ چکے تھے جیسے روزہ ، زکوة اور میراث وغیرہ
تو کیا ان احکام کے لئے بھی مرکز اور حکومت کے قیام کی شرط ہے؟ اگر نہیں اور یقینا
نہیں تو پھر یہ جہاد کے لئے کیوں شرط ہے ۔دونوں کے درمیان فرق کی وجہ بھی ہونی
چاہیے۔اﷲتعالی ہم کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔آمین۔
ہو نہیں سکتا
بھلا کیونکر جہاد
اے مرے مخلص ،
حکومت کے بغیر
آخرش میراث و
روزہ اور زکوٰة
سب ہی نافذ ہیں
خلافت کے بغیر
جواب نمبر۳:
جہاد تو خود
حکومتِ اسلامیہ اور خلافت قائم کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اب اگر حکومت کو شرط قرار
دیں تو جہاد کے قائم کرنے کے لئے تو منطق کی اصطلاح میں( دور) لازم آ تا ہے جو کہ با طل ہے ۔
جواب نمبر ۴ :
اس سلسلہ میں
عہدِ رسالت کا واقعہ مد نظر رہنا چاہئے ۔
۶ھ میں حضرت پاک ﷺ
عمرہ کے ارادہ سے مکہ تشریف لے جا رہے تھے کہ کفار نے حدیبیہ کے مقام پر روک
لیا،اور وہاں مشرکین ِمکہ اور حضرت پاکﷺ کے درمیان ایک معاہدہ طے
پایا جسکی شرائط نہایت سخت تھیں جن میں ایک شرط یہ تھی کہ کفار میں سے کوئی شخص
مسلمان ہو کر مدینہ چلاجائے تو اسکی و اپسی ضروری ہے جبکہ اگر کوئی شخص العیاذباﷲ
مرتد ہو کر مدینہ سے مکہ چلا جائے تو اسکی واپسی نہیں ہو گی۔ اس معاہدہ کے بعد
حضرت ابو بصیر ؓمسلمان ہو کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آگئے، تو کفار کے مطالبہ پر
حضرت پاک ﷺ نے
ان کو مکہ مکرمہ سے آنے والے دو آدمیوں کے حوالہ کر دیا اور حسب وعدہ واپس فرمادیا
۔
راستہ میں حضرت
ابو بصیرؓنے دونوں آدمیوں سے کہا کہ یہ تلوار جو تمہارے ہاتھ میں ہے بڑی زبر دست
ہے ذرا دکھاو،وہ کافر ذرا سی تعریف پر پھول گیا اور یہ کہہ کر کہ میں نے بہت سے
لوگوں پر اس کاتجربہ کیا ہے، تلوارحضرت ابو بصیرؓکے حوالہ کر دی ۔آپ نے ایک آدمی
کا کام اسی تلوار سے تمام کر دیااور دوسرا وہاں سے بھاگ گیا۔حضرت ابو بصیرؓمدینہ
میں دربارِرسالت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ، حضرت آپ نے حسب وعدہ واپس فرمایا
اور میرا ان سے کوئی معاہدہ نہیں، مگر حضرت ابو بصیرؓ اس خوف سے کہ شایددوبارہ
کفار کے مطالبہ پر حضرت پاک ﷺ مجھے واپس کر دیں۔ مدینہ سے دور سمندر کے کنارے ڈیرا لگا لیا
اب ہر شخص مکہ سے مسلمان ہوتا اور انکے پاس پہنچ جاتا یہ مختصر سی جماعت تیار ہو
گئی۔( ان افراد کی تعداد ستر ہو گئی تھی اور علامہ سھیلی ؒکے بقول تین سوہو گئے
تھے۔ زرقانی ج ۲) اور ادھر سے کفار کے راستے کو بند کر دیا اور کفار پر حملے
کرتے رہے ۔جو قافلہ ادھر سے گز رتا اس سے جنگ کرتے۔ حتی کہ کفار نے پریشان ہو کر
حضرت پاک ﷺ کی
خدمت میں گزارش کی کہ آپ ان کو مدینہ منورہ بلا لیں ۔ اب دیکھئے کہ یہ حضرات کس
حکومت کے تحت جہاد کر رہے تھے اور کیا ان کا جہا د غیر شرعی تھا؟ ان کے اس مبارک
عمل کے بر حق ہونے پر حضرت پاک ﷺ کی خاموشی ہی بہت بڑی دلیل ہے۔
