اعتراض
آ ج
ایک بات بڑے بڑے، لاکھوں کے اجتماعات میں بڑی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کے ساتھ کی
جارہی ہے کہ حکومت سے کچھ نہیں ہوتا، وزیروں ،مشیروں سے کچھ نہیں ہوتا ۔ صرف اعمال
پر محنت کرو کیو نکہ حدیث شریف میں ہے ۔
‘‘اَعْمَالُکُمْ
عُمَّالُکُم’’ تمہارے اعمال ہی تمہارے حکمران ہیں ۔
یعنی
جیسے اعمال کرو گے ویسے ہی تم پر حکمران ہوں گے اور جیسے ہی ہمارے اعمال زمین سے
آسمان پر جائیں گے ویسے ہی حالات آسمان سے زمین پر اتریں گے ۔
اس لئے
بس اعمال کی فکر کرو یہ لڑنا ،بھڑ نا کافروں کاقتل چھوڑ دو، بوسنیا ، چیچنیا،فلسطین
اورکشمیرمیں اﷲ تعالیٰ کا عذاب آرہا ہے۔ کیو نکہ ان لوگوں نے اچھے اعمال چھوڑ دئیے
تھے ، جب ہمارے اعمال درست ہو جائیں گے تو ہمیں خود بخود حکومت بھی ملے گی اور عزت
بھی۔
جواب نمبر ۱:
کیاجہاد فی سبیل اﷲ العیاذ باﷲ عمل
بد ہے؟ کیا کافروں کو قتل کرنا اﷲ تعالیٰ کا حکم اور
حضرت پاک کی مبارک سنت نہیں؟ کیاا
سلحہ رکھنا اﷲ تعالیٰ کی محبت کی علامت نہیں؟ کیاجنگ کرنے والے شخص سے اﷲ تعالیٰ
محبت نہیں فرماتے؟ کیا جہاد کے میدان میں تھوڑی دیر کا قیام گھر کی ستر سالہ عبادت
سے افضل نہیں ؟کیا کافر کے قتل کرنے پر جنت کی بشارت نہیں؟ کیا ایک تیر چلانے پر
تین آدمیوں کے لئے جنت کی خوشخبری نہیں؟وغیرہ وغیرہ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے
اور کلمات کہنے والے وہ اشخاص ہیں جوجہاد فی سبیل اﷲ کو اعمال صالحہ میں شمار ہی
نہیں کر تے ۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر ان کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے ۔
جواب نمبر ۲:
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ شریعت کے
ہر عمل کا نتیجہ بھی الگ ہے ۔ہر عملِ شرعی کا ایک مقصد ہے اگر چہ اصل کامیابی تو
آخرت کی کامیابی اور اﷲتعالیٰ کی رضا مندی ہے مگر دنیا میں ہر عمل کا ایک نتیجہ ہے
جو اسکی دنیاوی غرض ہے۔جب کوئی عمل زمین سے آسمان پر جائے گا تو اسکا نتیجہ بھی
آسمان سے زمین پر آئے گا اسی طرح جہا د فی سبیلﷲ کا ایک مقصد اور غرض وغایت ہے ۔جب
جہاد زمین سے آسمان پر جائے گا تو اسکے نتیجے بھی آسمان سے زمین پر آئیں گے ۔
زمین پر جہاد ہوگا توآسمان سے اﷲ
تعالیٰ فرشتوں کو مدد کے لئے اتا ریں گے۔
زمین پر جہاد ہو گا تو اﷲ تعالیٰ کی
مدد آسمان سے نازل ہو گی ، کیونکہ وعدہ ہے ۔
)
اِنْ تَنْصُرُوْااﷲَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ
اَقْدَامَکُمْ ‘‘(سورۃ محمد ، آیت نمبر۷
زمین پر جہاد نہ ہو گا تو آسمان سے
مساجد ، مدارس ، خانقاہوں اور عبادتگاہوں کی حفاظت نازل نہیں ہو گی بلکہ بربادی
نازل ہوگی ۔
وَلَوْلَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّ صَلَوٰاتٌ وَّمَسَاجِدُ
یُذْکَرُفِیْھَا اسْمُ اﷲِکَثِیْرًا (سورۃ الحج ، آیت نمبر۴۰)
جب زمین پر جہاد نہ ہو گا تو آسمان
سے فساد اور تباہی نازل ہو گی ۔
وَلَوْلَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ
(سورۃ البقرہ ، آیت نمبر ۲۵۱)
زمین پر جہاد نہیں ہوگا تو مسلمانوں
کے لئے آسمان سے ذلت نازل ہو گی۔
اِذَا تَرَکْتُمُ
الْجِہَادَفَسَلَّطَ اللہُ عَلَیْکُمُ الذِّلَۃ‘‘َ( الحدیث)
جب زمین پر جہاد نہ ہو گا تو
مسلمانوں کے لئے ایمان کی بجائے منافقت کی موت آسمان سے نازل ہو گی۔
مَنْ مَّاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ
یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہُ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاق(الحدیث)
خلاصہ :
خلاصہ یہ کہ آپ کے اس اصول کو تسلیم
کرتے ہوئے یہ با ت کہنی پڑتی ہے کہ جب جہاد زمین سے آسمان پر جائے گا تو آسمان سے
عزت ، مال و جان و ایمان کی حفاظت ، خلافت ، حدود اﷲ کا قیام نازل ہو گا ۔ورنہ ذلت
، غلامی ، فساد ، بربادی و تباہی نازل ہو گی۔کیو نکہ ان چیزوں کا تعلق جہاد کے
ساتھ ہے ۔
خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگر
پوری دنیا کے مسلمان ، پانچوں وقت کی نمازباجماعت بلکہ تہجد ،اشراق،چاشت
اوراوّابین کے بھی پابند ہو جائیں،زکوٰۃ صدقات بھی ادا کریں ، رمضان تو کیا ہر
جمعرات ، پیر اورایام بیض عاشورا ء، اور ذوا لحجہ کے دس روزے بھی رکھیں اور پورا
دن قرآن کی تلاوت ، ذکر اﷲ اور رات پوری مصلیٰ پر گزار دیں ، حرام کھانا چھوڑ دیں
۔
مگر مال و جان عزت اور ایمان کا
تحفظ اور خلافت کا قیام اسوقت تک خد اکی قسم ، خدا کی قسم ، نہیں ہو گا جب تک یہ
امت جہاد نہیں کرے گی ۔
کیو نکہ ان چیزوں کا قیام اور وجود
نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج کے ساتھ نہیں بلکہ جہاد ہی کے ساتھ ہے ۔باقی نماز ، روزہ ،
حج، زکوۃ، اپنی جگہ پر الگ الگ فریضے ہیں جن کی فرضیت تو کیا اہمیت کا انکار کرنا
بھی کفر ہے ۔
لائیں نہ مومنین گر قوّت کو کام میں
ہر گز نہیں نجات ملے گی فساد سے
روزہ نماز و ذکر کا اپنی جگہ ثواب
لیکن نفاذِ دین تو ہو گا جہاد سے
اس لئے اگر صرف نماز ، روزے اور حج
، زکوۃ اور اﷲ تعالیٰ کے ذکرو تلا وت سے خلافت قائم ہوتی، اﷲتعالیٰ کی مدد
اترتی،اسلام پھیل سکتا ، کفر شرارتوں سے باز آسکتا تو کم ازکم حضرت پا ک اپنے نہتے
نمازی ، روزے دار ، قرآن کے قاری صحابہ رضی اﷲ عنہم کو میدانوں میں لے جا کر قتل
نہ کرواتے اور نہ ہی کفار کو قتل کر کے جہنم روانہ فرماتے ۔صحابہ رضی اﷲ عنہم
اجمعین بھی مکہ مکرمہ میں حرم کی نمازوں اور مدینہ منورہ (مسجد نبوی) میں حضرت پاک
کے پیچھے نمازوں کو چھو ڑ کر بلادِ کفر میں جاکر جنگیں نہ کرتے ۔
بلکہ دیکھئے غزوہ موتہ کے موقع پر
حضرت زید بن حارثہ ص کو حضرت پاک نے امیر لشکر بنا کر روانہ فرمایا اور یہ فرمایا
کہ اگر زید ؓ شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالبؓ، جب وہ شہید ہو جائیں تو حضرت
عبداﷲ بن رواحہ ؓ جب وہ بھی شہید ہو جائیں تو جسکو چاہیں امیر بنا لیں ۔حضرت عبداﷲ
بن رواحہ ؓنے یہ سوچ کر کہ اب شہادت تو یقینی ہے ،آخری نماز محبوب کے پیچھے پڑھتے جائیں،گھوڑا تیز رفتار ہے
۔خیرالایام ، جمعہ کے دن، خیر المساجد بعد الحرم، مسجد نبوی
میں خیر الامام حضرت پاک کے پیچھے نماز اد ا فرمائی ، جب حضرت پاک کی نظر پڑی تو
حضرت پاک کے دریافت فرمانے پر حضرت عبداﷲ بن رواحہؓ نے عرض کیا کہ حضرت دل کی تمنا
تھی کہ اپنے محبوب کے ساتھ نماز ادا کر وں گا اور پھر جلدی جلدی اپنے ساتھیوں سے
جا ملوں گا۔ تو حضرت پاک نے فرمایا۔
اگر تم دنیا کی تمام چیزوں کو اﷲ
تعالیٰ کے ر استہ میں خرچ کرو گے تب بھی ان لوگوں کی صبح کا ایک سفر اور اس کا
ثواب حاصل نہ کر سکو گے ۔
اس لئے خدا را ایسی باتیں زبان سے نکا ل کر اپنی آخرت خراب نہ کریں نہ
ایمان کو نفاق سے بدلیں نہ جہاد کی اہمیت کو کم کریں کیونکہ جہاد کی اہمیت کم ہوئی
ہے نہ آئندہ ہو گی ۔ شریعت کے ہر عمل کو اس کا درجہ دیں ،اسی کانام دین ہے ،اسی کا
نام اسلام ہے اور اسی کا نام ایمان اور مذہب ہے ۔
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ