فوج کی محبت میں اندھے بہرے زہنی غلاموں کا ٹولہ مت بنیں۔
کہ فوج تو کفار کی بدترین غلامی کریں۔اور کفر کا راستہ اختیار کریں۔مگر آپ بھی اندھے مقلد بن کہ اپنا ایمان بیچ دے۔ایئں دیکھئے اپنے ناپاک فوج کی حقیقی حقیقت وہ بھی گھر بھیدی سے۔۔۔
جنرل شاہد عزیز کی کتاب٫٫ یہ خاموشی کہاں تک،، سے لیے گئے چند واقعات۔۔۔اس کتاب کا مطالعہ ضرور کیجئے۔۔۔
یہ خاموشی کہاں تک
آئیں پڑھیں غدار کون ماں دھرتی بیچنے والا کون کرپٹ کون ۔۔؟
لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز 37 برس پاک فوج کا حصہ رہے یہ تین نسلوں سے فوجی ہیں۔ ان کے والد بھی فوج میں تھے، وہ بریگیڈیئر کے عہدے تک پہنچے۔ جنرل شاہد عزیز نے 1971ء کی جنگ لڑی، یہ سیکنڈ لیفٹیننٹ سے تھری اسٹار جنرل تک پاک فوج کے پورے کمانڈ سسٹم کا حصہ رہے، یہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز بھی رہے، چیف آف جنرل اسٹاف بھی، لاہور کے کور کمانڈر بھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے لیے چیئرمین نیب بھی۔
یہ جنرل پرویز مشرف کے رشتے دار بھی ہیں۔ پاک فوج میں اس وقت ان کی تیسری نسل خدمات سرانجام دے رہی ہے ان کے صاحبزادے بھی پاک فوج میں ہیں‘ جنرل شاہد عزیز نے ریٹائرمنٹ کے بعد ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ کے نام سے اپنی آٹو بائیو گرافی لکھی۔ جنرل شاہد عزیز کی یہ کتاب خاصی متنازعہ تھی۔ کتاب کی اشاعت کے بعد جنرل مشرف ان کے ساتھیوں اور فوج کے چند حاضر سروس اور ریٹائر عہدیداروں نے جنرل شاہد عزیز کو آڑے ہاتوں بھی لیا، اس کتاب کو فوج کے خلاف سازش بھی قرار دیا اور جنرل شاہد عزیز کے کورٹ مارشل کا مطالبہ بھی کیا۔
ان دنوں جنرل شاہد عزیز کے ایک انٹرویو نے بھی تہلکہ مچایا لیکن سچی بات ہے میں نے جب یہ کتاب پڑھی تو مجھے اس میں کوئی برائی، خرابی یا سازش نظر نہیں آئی۔ یہ ایک دھڑکتے دل اور قوم سے شرمندہ ایک ایسے جنرل کی آپ بیتی ہے جس نے مکمل جرأت کے ساتھ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کا اعتراف کیا۔ جنرل شاہد نے فوج، حکومت اور سیاستدانوں کی کشتیوں میں موجود ان تمام سوراخوں کی بھی کھل کر نشاندہی کی جن کو ہم کبھی صابن، کبھی گوند اور کبھی کاغذ لگا کر بند کرتے ہیں اور کبھی قالین، دری یا جائے نماز کے نیچے چھپا دیتے ہیں مگر انھیں مستقل بند نہیں کرتے۔ یہ کتاب منافقت پر مبنی نظام کا ایک مکمل تجزیہ بھی ہے اور ایک ایسے شخص کا اعتراف جرم بھی جو 37 برس تک اس نظام کا حصہ رہا۔
ہم جنرل شاہد عزیز کے خیالات اور انکشافات سے اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہم انھیں یکسر مسترد نہیں کر سکتے کیونکہ جب دھواں اور آگ دونوں موجود ہوں تو پھر زیادہ سے زیادہ یہ بحث کی جا سکتی ہے۔ یہ آگ لگائی کس نے تھی یا اسے بجھانے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے لیکن آگ اور دھوئیں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ حقیقت ہے سیاستدان ہوں، حکومت ہو یا پھر فوج ہو ملک کے تمام اداروں میں دھواں بھی ہے اور آگ بھی۔ میرا ذاتی خیال ہے فوج، حکومت اور سیاستدان اگر اس کتاب کو سسٹم کے بارے میں تحقیقاتی مکالمہ سمجھ لیں اور اسے پڑھ کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں تو کم از کم ڈھلوان پر جاری سفر ضرور رک سکتا ہے، ہم مزید پھسلنے سے ضرور بچ سکتے ہیں۔
جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا،
جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999ء سے قبل میاں نواز شریف کی حکومت کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ جنرل شاہد عزیز اس وقت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے۔ جنرل مشرف نے سری لنکا جانے سے قبل 10 کور کمانڈرز جنرل محمود، سی جی ایس جنرل عزیز خان اور ڈی جی ایم او یعنی انھیں یہ ذمے دار ی سونپ دی تھی۔ ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق اور ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی بھی اس آپریشن کا حصہ تھے۔ جنرل مشرف کو اس معاملے میں کور کمانڈر پشاور جنرل سعید الظفر پر اعتماد نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کو برطرف کرنے، پی ٹی وی اسلام آباد پر قبضے اور جنرل پرویز مشرف کو کراچی میں بحفاظت اتارنے کے پورے آپریشن کی نگرانی جنرل شاہد عزیز نے خود کی۔
جنرل شاہد عزیز نے اعتراف کیا،
ہم اسے انقلاب سمجھ رہے تھے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ہم سب کا دل ٹوٹتا گیا یہاں تک کہ ایک ایسا وقت آیا جب وہ فوجی وردی جو قوم کا پرائیڈ تھی وہ صرف دفتروں میں پہنی جانے لگی۔ افسر گھر سے سادہ کپڑوں میں نکلتے اور دفتر میں وردی پہن لیتے تھے۔
جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا،
فوج چوہدریوں کے خلاف تھی اور ان کا جنرل مشرف سے گٹھ جوڑ نہیں چاہتی تھی لیکن مشرف نے فوج کی بات نہیں مانی۔ جنرل مشرف نے 31 جنوری 2002ء کو کور کمانڈرز کی میٹنگ میں اعلان کیا، ہم پاکستان مسلم لیگ ق کی مدد کریں گے، پیپلز پارٹی کو توڑیں گے اور ن لیگ کو کمزور کریں گے۔ جنرل مشرف نے 2002ء کے الیکشنز میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے بہت کچھ کیا، ووٹرز تک کی عمر 21 سال سے 18 سال کر دی گئی۔
جنرل شاہد نے انکشاف کیا،
جنرل مشرف سیاسی فیصلوں میں فوج کو اعتماد میں نہیں لیتے تھے۔ فوج میاں برادران کے جلاوطنی کے معاہدے تک سے واقف نہیں تھی۔
مجھے جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں تھی، یہ امریکا اور جنرل پرویز مشرف کی جنگ تھی اور ایک طویل عمل کے ذریعے اسے پاکستان کی جنگ بنا دیا گیا۔ یہ پرائی جنگ اب تک ہمارے 60 ہزار سویلین اور 7 ہزار جوانوں کو نگل چکی ہے۔ یہ جنگ روز کیپٹن اسفند یار جیسے کسی نہ کسی افسر کی شہادت کا باعث بنتی ہے لیکن اس کے باوجود آج تک اس جنگ کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ کسی نے کوئی مقالہ نہیں لکھا، کیوں؟ اتنی خاموشی کیوں ہے؟ یہ سناٹا کب تک چلے گا؟ یہ خاموشی کب تک‘ آخر کب تک۔۔۔۔۔
پاکستانیوں اب یہ نہ کہنا کہ یہ صرف مشرف ایسے تھے ویسے تھے۔بلکہ تمام جرنیلوں و حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہی حال رہا ہیں۔باقی اللہ آپ لوگوں کو ہدایت دے۔
نوٹ۔۔۔جنرل شاہد عزیز آخر میں توبہ کرکہ القاعدہ برصغیر میں شامل ہوگئے تھے۔اور ایک مشن کی وجہ سے روکے رہے۔
جب پاکستان مرتد ایجنسی کو اس بات کا علم ہوا کہ جنرل شاہد عزیز القاعدہ میں جانے والے ہیں۔تو ان کو لاپتہ کرکہ شہید کردیا۔
نحسبہ کذالک واللہ حسیب
جنرل شاہد عزیز نے انکشاف کیا،
امریکی سازو سامان این ایل سی کے ٹرالرز کے ذریعے بھی افغانستان پہنچایا گیا۔ امریکا نے ایک گہری سازش کے ذریعے پاک فوج اور مجاہدین کو آپس میں لڑایا۔ امریکی افغانستان کی جنگ کو پاکستان تک پھیلانا چاہتے تھے۔ امریکا نے پہلے افغانستان کے مختلف حصوں میں موجود طالبان کو پاکستانی سرحد کے قریب تورا بورا میں جمع کیا اور پھر بمباری شروع کر دی۔ یہ لوگ بھاگ کر پاکستان گئے، پاکستان کے ساتھ ان کا کوئی اختلاف نہیں تھا، یہ لوگ جب پاکستان میں داخل ہوئے تو میں نے جنرل یوسف کے آفس میں سیٹ کام کے چیف جنرل ٹونی فرینکس سے پوچھا، آپ جب طالبان کو پاکستانی سرحد کے قریب اکٹھا کر رہے تھے تو آپ نے ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا؟ جنرل کا جواب تھا، یہ ہماری کوتاہی ہے لیکن یہ کوتاہی نہیں تھی، امریکا نے جان بوجھ کر اپنے دشمنوں کو پاکستان میں پھیلا دیا تا کہ پاکستان بھی مکمل طور پر افغان جنگ کا حصہ بن جائے۔
امریکا نے اس کے بعد ہم پر فاٹا میں فوج بھجوانے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، ہمیں غیر ملکی مجاہدین کو گرفتار کرنے کا ٹاسک بھی دیا گیا۔ ہم نے کوہاٹ کی جیل خالی کی اور 80 عرب باشندوں کو وہاں بند کر دیا۔ کابل پر قبضے کے بعد امریکا نے بھارت کے لیے دروازے کھول دیے۔ انڈیا نے وہاں ٹھکانے بنا لیے۔ امریکیوں نے 110 پاکستانی بھی بھارت کے حوالے کر دیے، یہ لوگ انھیں انڈیا لے گئے اور اس کے بعد ان کی کوئی خبر نہیں آئی۔ امریکا نے گیارہ سو پاکستانی ہمارے حوالے کیے اور ہم نے انھیں 232 غیر ملکی مجاہدین دیے۔
Ye Khamoshi Kahan Tak - Download PDF