شعبان ۵ھ
جو غزوہ بنی مصطلق کے سفر میں منافقین کے سردار عبداﷲ بن ابی بن سلول نے کہا کہ یہ
مہاجرین لوگ ہم پر غالب آگئے ہیں، خدا کی قسم مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلت والے کو
مدینہ سے باہر نکال دے ،یعنی ہم لوگ مہاجرین صحابہ رضی اﷲ عنہم کو مدینہ سے نکال
دیں گے، حضرت پاکﷺ کو
اطلاع پہنچی ،تو حضرت عمر ؓنے عرض کیا ،یا رسول اﷲﷺمجھے اجازت دیجئے ،کہ میں اس
منافق کی گردن اڑادوں ،توآپ ﷺنے فرمایا رہنے دو، کیونکہ (لوگوں کو حقیقت حال کا پتہ نہیں
ہے) لوگ کہیں گے کہ محمدﷺ
اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر)
اب دیکھیں حضرت
پاک ﷺ نے
یہ نہیں فرمایا کہ ان منافقین کو قتل نہیں کرنا ،بلکہ ایک خاص وجہ کے تحت قتل نہیں
فرمایا ۔مگر منافقین کے قتل کو پسند کرنا اور کسی خاص عذر کی وجہ سے قتل نہ کرنا،
اس بات کی دلیل
ہے کہ منافق کا قتل بھی فی نفسہ جائز بلکہ سنت ہے۔
اور یہ ایسا ہی
ہے، جیسا کہ حضرت پاک ﷺ نے
غزوہ خندق کے موقع پر عُیَیْنہ بن حصن فزاری کو مدینہ کی نصف کھجوریں دے کر صلح کا
ارادہ فرمایا تھا ،مگر سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہما کے مشورہ کے بعد
آپ ﷺنے
ارادہ ملتوی فرما دیا۔
(ابن ہشام)
مگر اب یہ
مستقل مسئلہ بن گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے کافروں کو مال دے کر صلح کرنی پڑے تو
جائز ہے۔
اس طرح پاجامہ
حضرت پاکﷺنے
استعمال نہیں فرمایا مگر صرف پسند فرمایا ،مگر اسے استعمال کرنا سنت ہوگیا۔
اور محرم کا
دسویں تاریخ کاروزہ رکھا ،مگر یہ بھی فرمایا کہ آئندہ برس زندہ رہا ،تو ایک روزے
کا اضافہ کروں گا لہٰذا اب نو یا گیارہ کا روزہ بھی سنت ہے۔
اس لئے یہ بڑے
اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ منافقین کا قتل بھی گویا کہ حضرت پاک
ﷺ کی
سنت سے ثابت ہوگیا۔