اعتراض
یَآاَیُّھَا
النَّبِیُ جَاہِدِ الْکُفَارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ
وَمَأْوٰھُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْر۔
(سورۃ
تحریم، آیت نمبر۹)
اس
آیتِ کریمہ میں بھی’’ جَاهِدْ‘‘ کا لفظ ہے اور اس کے معنی بھی قتال نہیں، کیونکہ
اس میں حکم ہے کہ منافقین سے جہاد کرو اور منافقین سے خود حضرت پاک ﷺنے
بھی قتال نہیں فرمایا،اور اگر یہاں ’’ جَاھِدْ‘‘ کا معنی ’’قاَتِلْ‘‘
ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ،یہ ایساحکم ہے جس پر خود
حضرت پاک ﷺ نے بھی عمل نہیں فرمایا ۔
جواب:
اس آیت کریمہ
میں ‘‘جَاھِد’’بمعنی ‘‘قاَتِل’’ہے یعنی لڑو اورقتال کرو۔
پہلی دلیل:
یہ ہے کہ یہ
آیت قرآن میں دوبار آئی ہے، ایک سورۃ توبہ میں جو کہ خالص جہاد کے احکام و ترغیب
وغیرہ پر مشتمل اور مدنی ہے، دوسری بار سورۃ تحریم میں اور سورۃ تحریم بھی مدنی ہے
اور جہاد بھی مدنی حکم ہے۔
دوسری دلیل:
یہ ہے کہ اس
میں حکم ہے‘‘ وَاغْلُظْ عَلَیْھِمْ’’کہ ان کفار و منافقین پر سختی کرو ،اور یہ
سختی اور غلظت جہاد میں ہی ہوتی ہے نہ کہ دعوت و تبلیغ میں۔کیوں کہ دعوت و تبلیغ
میں تو حکم ہے۔
قُلْ
ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اُدْعُوْ اِلٰی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ (سورہ یوسف، آیت نمبر۱۰۸)
اُدْعُ
اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ
بِالَّتِی ہِیَ اَحْسَنُ
(سورہ
النحل، آیت نمبر۱۲۵)
اِدْفَعْ
بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ(سورہ حم السجدہ، آیت نمبر۳۴)
تینوں آیا ت کا
خلاصہ یہ ہے کہ آپ حکمت ، بصیرت اور اچھی نصیحت کے ساتھ ان کافروں کو اپنے رب کی
طرف دعوت دیں ۔
تیسری دلیل:
یہ ہے کہ اس کے
متّصل بعد فرمایا
‘‘ وَمَأْوٰھُمْ
جَہَنَّم’’کہ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے ان کو قتل کرو اوران کے ٹھکانہ اور مقام تک
پہنچاؤ۔
اور آیاتِ دعوت
و تبلیغ کا اندازیہ نہیں ہوتا ،بلکہ ان کے آخر میں کوئی نہ کوئی ہدایت کی طرف
ترغیب دینے والا ،یا پھر کفر و شرک سے بیزاری کااظہار کرنے والا جملہ ہوتا ہے، اور
یہاں پر تو ذکر ہی اس کا کیا جس کا تعلق ہی موت سے ہے کیونکہ جہنم تو موت کے بعد
ہی ہے یعنی قتل ہوں، اور پہنچیں اپنے ٹھکانہ پر
پہنچی وہیں پہ
خاک جہاں کا خمیر تھا
تائید :
حضرت شیخ الہند
مولانا محمود الحسن رحمۃا ﷲ علیہ نے بھی تفسیر عثمانی میں اس آیت کا ترجمہ یہ کیا
ہے۔
(اے نبیﷺ
لڑائی کر منکروں سے اور دغابازوں سے اور سختی کر ان پر اور ان کا گھر دوزخ ہے اور
بری جگہ جا پہنچے)
جواب نمبر۳:
اس آیت کریمہ
میں دو حکم ہیں جہاد اور غلظت یعنی سختی کرنا اور دو ہی قسم کے لوگوں کا ذکر ہے
کفا ر اور منافقین تو آیت کا معنی یہ ہوا کہ اعلانیہ جو کفار ہیں ان کے ساتھ جہاد
یعنی قتال کرو اور جو منافقین ہیں ان پر غلظت یعنی سختی کرو۔
اے نبیﷺ آپ
کیجئے بے شک
کافروں اور
منافقوں سے جہاد
خوب سختی
دکھائیے ان پر
تاکہ دوزخ میں
جا کے ہوں برباد
باقی رہا یہ
اشکال کہ پھر منافقین سے قتال کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب تو یہ ہے کہ منافق ہوتا
ہی وہ ہے، جس کا کفر تو مخفی ہو، مگر ایمان ظاہر کرتا ہو، تو جب تک کسی کا کفر
بالکل ظاہر نہ ہو، اس کو قتل کیسے کیا جا سکتاہے ؟
علماء نے اس
بات کی تصریح فرمائی ہے کہ ،زمانہ نبوت میں چونکہ حضرت پاک ﷺکو
بذریعہ وحی مطلع کردیا جاتاتھا ،مگر ہم کو کسی کے باطنی کفر پر فتوی کا کوئی حق
حاصل نہیں، اِلَّایہ کہ کوئی شخص باطنی کفر کواز خود ظاہر کردے ،مگر جب وہ ظاہر
کردے گا تو پھر وہ منافق نہ رہا بلکہ اعلانیہ کافر ہوگیا۔
البتہ ایک
اشکال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ ،جب حضرت پاک ﷺ کو بذریعہ وحی منافقین کا علم
ہو جاتا تھا ،تو پھر آپ نے منافقین سے جہاد یعنی قتال کیوں نہ کیا؟
تواس کی وجہ یہ
ہے کہ منافق تو ہوتا ہی وہ ہے ،جس کے دل میں کفر ہو ،مگر زبان سے اسلام کا اظہار
کرے ،جس کی وجہ سے لوگ اس کو مسلمان سمجھتے ہیں، تو اگر حضرت پاکﷺ
منافقین کو قتل فرماتے، تو لوگوں کو اعتراض کا موقع ملتا کہ محمد ﷺ
اپنے ہی لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔
(دیکھئے
عہد ِنبو ت کا واقعہ)
شعبان ۵ھ
جو غزوہ بنی مصطلق کے سفر میں منافقین کے سردار عبداﷲ بن ابی بن سلول نے کہا کہ یہ
مہاجرین لوگ ہم پر غالب آگئے ہیں، خدا کی قسم مدینہ پہنچ کر عزت والا ذلت والے کو
مدینہ سے باہر نکال دے ،یعنی ہم لوگ مہاجرین صحابہ رضی اﷲ عنہم کو مدینہ سے نکال
دیں گے، حضرت پاکﷺ کو
اطلاع پہنچی ،تو حضرت عمر ؓنے عرض کیا ،یا رسول اﷲﷺمجھے اجازت دیجئے ،کہ میں اس
منافق کی گردن اڑادوں ،توآپ ﷺنے فرمایا رہنے دو، کیونکہ (لوگوں کو حقیقت حال کا پتہ نہیں
ہے) لوگ کہیں گے کہ محمدﷺ
اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر)
اب دیکھیں حضرت
پاک ﷺ نے
یہ نہیں فرمایا کہ ان منافقین کو قتل نہیں کرنا ،بلکہ ایک خاص وجہ کے تحت قتل نہیں
فرمایا ۔مگر منافقین کے قتل کو پسند کرنا اور کسی خاص عذر کی وجہ سے قتل نہ کرنا،
اس بات کی دلیل
ہے کہ منافق کا قتل بھی فی نفسہ جائز بلکہ سنت ہے۔
مثال:
اور یہ ایسا ہی
ہے، جیسا کہ حضرت پاک ﷺ نے
غزوہ خندق کے موقع پر عُیَیْنہ بن حصن فزاری کو مدینہ کی نصف کھجوریں دے کر صلح کا
ارادہ فرمایا تھا ،مگر سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اﷲ عنہما کے مشورہ کے بعد
آپ ﷺنے
ارادہ ملتوی فرما دیا۔
(ابن ہشام)
مگر اب یہ
مستقل مسئلہ بن گیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے کافروں کو مال دے کر صلح کرنی پڑے تو
جائز ہے۔
اس طرح پاجامہ
حضرت پاکﷺنے
استعمال نہیں فرمایا مگر صرف پسند فرمایا ،مگر اسے استعمال کرنا سنت ہوگیا۔
اور محرم کا
دسویں تاریخ کاروزہ رکھا ،مگر یہ بھی فرمایا کہ آئندہ برس زندہ رہا ،تو ایک روزے
کا اضافہ کروں گا لہٰذا اب نو یا گیارہ کا روزہ بھی سنت ہے۔
اس لئے یہ بڑے
اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ منافقین کا قتل بھی گویا کہ حضرت پاکﷺ کی
سنت سے ثابت ہوگیا۔
لہٰذا اس آیت
میں بغیر کسی شک وشبہ کے یہ بات واضح ہو گئی ہے ،کہ آیت کریمہ میں ’’جَاھِدْ‘‘ سے
مراد قاتل ہی ہے۔