حضرت مسیح الامت رحمہ اللہ نے ایک قصہ سنایا تھا کہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ کہیں جارہے تھے ؛ راستے میں دیکھا کہ ایک چور کو سولی پر چڑھایا جا رہا ہے ، حضرت جنید نے لوگوں سے پوچھا کہ کس جرم کی پاداش میں اس کو سولی پر لٹکایا جارہا ہے ؟ بتایا گیا کہ یہ منع کرنے کے باوجود چوری کرنے سے باز نہیں آتا ، برابر چوری کرتا رہتا تھا ، اس نے ایک دفعہ چوری کی ، تو اس کا ایک ہاتھ کاٹا گیا ، دوسری دفعہ چوری کیا ، تو دوسرا ہاتھ کاٹا گیا ؛ مگر یہ پھر بھی باز نہیں آیا ؛ اس لیے یہ سزا دی جارہی ہے ، یہ سن کر حضرت جنید رحمہ اللہ نے فرمایا : میرا دل چاہتا ہے کہ اس کے پیروں کو بوسہ دوں ، پوچھا گیا کہ حضرت ! آپ اس چور کے پیروں کو بوسہ دیں گے ؟ کیوں ؟ تو فرمایا : میں اس چور کو نہیں ؛ بل کہ اس کے اندر کی استقامت کے پیروں کو بوسہ دینا چاہتا ہوں ، اگر ایسی استقامت ہم دینی کاموں میں پیدا کر لیں ، تو معلوم نہیں کتنی ترقی کریں گے۔
دین پر استقامت بڑی چیز ہے اور یہی آج کل مفقود ہے ، نوجوان لوگ دین پر آنا چاہتے ہیں اور آتے بھی ہیں ؛ مگر یہی استقامت نہ ہونے کی وجہ سے پلٹیاں کھاتے رہتے ہیں ، نماز شروع کرتے ہیں ، پھر چھوڑ دیتے ہیں ، علمِ دین حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، پھر استقامت میں کمی سے وہ بجھ جاتا ہے ۔
(واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے)