مرے شعور کی رعنائ ہیں جنابِ علی
پڑھایا مجھکو اب و جد نےہے نصابِ علی
مقامِ حیدر کرار پوچھیے مت، جب
مقامِ اوج پہ ٹھہرے ہیں فیضیابِ علی
علی امامتِ شیخین اور غنی میں رہے
قسم خدا کی وہ تینوں تھے انتخابِ علی
پھر آؤ قلعۂ خیبر، اگر یہ دیکھنا ہے
کہ کیسے لگتا تھا مثلِ اسد شبابِ علی
علی سے بغض تمہارا تمہیں مبارک ہو
چمک رہاہے زمانے میں آفتابِ علی
تمہارا عشقِ علی؛ بھنگ، چرس اور نشہ
مگر ہے صوم و صلوٰہ اور رن نصابِ علی
کبھی نہ چھوڑنا صارِم وہ راستہ جس پر
شہید ہوکے معطّر رہے گلابِ علی
✍️: محمد سمیع اللّٰه عباسی صارِم