آج خیر
الامت ہونے کی تشریح ،عام طور پر بعض کم فہم لوگ یہ کرتے ہیں کہ، لوگوں کو دین کی
طرف بلاؤ، نماز ،روزہ کی بات کرو اور کہتے ہیں کہ لوگوں کو ترغیب دے کر، فضائل سنا
کر دین کی طرف مائل کرنا ہی اس امت کا کام ہے اور اسی وجہ سے یہ امت خیر الامت ہے لہٰذا
علماء جو کہ مسجد کے منبر کے خطیب ہیں یا مدارس میں تدریس کرتے ہیں یا وہ مشائخ جو
خانقوں میں بیٹھ کر اﷲ اﷲ کرنا سکھاتے ہیں یا مجاہدین جومیدان ِجہاد میں جا کر
اپنی جانیں پیش کرتے ہیں ان کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ،خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع
کرتے ہیں اس لئے ان کو بھی چاہئے دعوت و تبلیغ کے نام سے ہونے والے کام میں جُڑیں
اور خیرالامت ہونے کا مصداق
بنیں۔
جواب
امت محمدیہ
علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے خیر الامم ہونے کی یہ وجہ جو عام طور پر بیان کی
جاتی ہے قطعی طور پر غلط ہے اور قرآن وسنت کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے اور غور سے
دیکھا جائے ،تو دعوت وتبلیغ کے نام سے ہونے والے کام کو دین کی روح قرار دینا اور
اصل سمجھ کر باقی سب کو بے کار سمجھنا صریح غلطی ہے ،بلکہ یہ دین کی توہین ہے، جس
سے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، اس سے علماء، مشائخ اور مجاہدین کی توہین کا پہلو
نکلتا ہے جو کہ بہت بڑی بے ادبی گستاخی اور محرومی کی بات ہے۔
آئیے اب غور
کیجئے اور دیکھئے کہ اس امت کے خیر الامت ہونے کی کیا وجہ ہے ۔
خیر الامۃ ہونے
کی وجہ:
(۱)حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع
صاحب رحمۃ اﷲ علیہ آیت
کُنْتُمْ
خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ
عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔(سورۃ آل عمران، آیت ۱۱۰) کے تحت اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
اس آیت
میں امتِ محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ،یہ اللہ کی مخلوق
کو نفع پہنچانے ہی کیلئے وجود میں آئی ہے اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ، اللہ
کی مخلوق کی روحانی اور اخلاقی فکر اس کا منصبی فریضہ ہے اور سب سے زیادہ امر
بالمعروف ونہی عن المنکرکی تکمیل اس امت کے ذریعہ ہوئی اگرچہ امر بالمعروف ونہی عن
المنکر کا فریضہ پچھلی امتوں پر بھی عائد تھا، جس کی تفصیل احادیثِ صحیحہ میں
مذکور ہے، مگر اوّل تو پچھلی بہت سی امتوں میں جہاد کا حکم نہیں تھا، اس لئے ان کا
امر بالمعروف ونہی عن المنکر صرف دل اور زبان سے ہو سکتا تھا، امت محمدیہ ﷺمیں
اس کا تیسرا درجہ ہاتھ کی قوت سے امر بالمعروف کا بھی ہے، جس میں جہاد کی تمام
اقسام بھی داخل ہیں اور بزور حکومت اسلامی قوانین کی تنفیذ بھی اس کا جز ہے۔(معارف
القرآن ص ۱۵۰،ج ۲)
امت خیر الوراء
ہے اس لئے خیر الامم
اسکی دعوت کے
عقب میں قوتِ تلوار ہے