ایسے حضرات کے
لئے میں حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب دامت برکاتہم کے ایک وعظ میں سے ایک اقتباس
نقل کرتا ہوں ۔ مہربانی فرما کر حضرت اقدس مفتی رشید احمد لدھیانوی دامت برکاتہم
کے ارشادکو نہایت توجہ اور غورکے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت فرما تے
ہیں
تبلیغ کیلئے
جہاد اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس کے بغیر تبلیغ ممکن ہو ہی نہیں سکتی۔ جو لوگ یہ
سمجھتے ہیں کہ تبلیغ صرف زبانی ہے اور مسلح جہاد کے بغیر تبلیغ ممکن ہے ۔وہ تبلیغ
کا مطلب سمجھنے میں تین غلطیاں کر رہے ہیں۔
(۱)چند عبادات کی تبلیغ کرکے سمجھتے ہیں کہ
تبلیغ کا حق ادا ہوگیا ۔
حالانکہ ہر ذی
شعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ، پوری تبلیغ تو جب ہی ہوگی ،جب پورے اسلام کی تبلیغ ہو
صرف نماز یا مزید دو تین احکام کی تبلیغ کو پورے دین کی تبلیغ نہیں کہہ سکتے۔
احکامِ اسلام
کے چار شعبے ہیں
(۱) عقائد(
۲) عبادات(
۳) معاملات(
(۴) حدودو قصاص
جب تک ان چار
شعبوں کے تمام احکامات کی تبلیغ نہ ہو تبلیغ مکمل نہیں ہو سکتی اور آپ تبلیغ کے
فرض سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ،جس طرح انفرادی عبادات سے متعلقہ احکامات ہیں اسی طرح
معاملات ،یعنی وہ امور جن میں ایک شخص کو دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے، جیسے نکاح،
طلاق، خریدوفروخت، اجارہ و استجارہ، زراعت و ملازمت وغیرہ سے متعلق بھی اسلام کے
احکام ہیں۔ جن کو قرآن وحدیث میں مفصل بیان کیا گیا ہے، زانی کو یہ سزا دی جائے
اور چور کو یہ ، بہتان لگانے والے کو یہ سزا دی جائے اور ڈاکو کو یہ۔ جب تک ان
تمام احکام کی تبلیغ نہ ہو ،اسے اسلام کی کامل تبلیغ نہیں کہا جا سکتا۔
(۲)صرف زبانی تبلیغ کو کافی سمجھتے ہیں کہ،
یہ جاری رہے تو معاشرہ کی مکمل اصلاح ہو جائیگی اور تمام کفار مسلمانوں کی اس
معاشرت کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہو جائیں گے، نہ شرعی سزائیں جاری کرنے کی ضرورت
اور نہ کفار سے مسلح جہاد کرنے کی ضرورت۔ حالانکہ دعوت و تبلیغ ایک شرعی اصطلاح ہے
جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر خطاب کفار سے ہے ،تو صرف اسلام ان پر پیش کردینا فریضہ
دعوت سے سبکدوش ہونے کیلئے کافی نہیں ،بلکہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جائے، جو
اسلام قبول کر لے وہ ہمارے بھائی ہیں اور جو اسلام قبول نہ کریں ان کو اسلامی
حکومت قبول کرنے کی دعوت دی جائے ،یعنی حکومت تو اسلام کی ہوگی تمہیں جزیہ دے کر
حکومت کے تابع رہنا پڑے گا ،حکومت اسلامیہ تمہاری جان و مال کی حفاظت کرے گی ،اگر
وہ حکومت ِاسلام بھی تسلیم نہیں کرتے، تو پھر ان سے مسلح جہاد کیا جائے اور اس وقت
تک قتال جاری رکھا جائے ،جب تک کہ وہ اسلام یااسلامی حکومت کو قبول نہ کریں۔ اسلام
جبراً کافروں کو مسلمان بنانے کی تعلیم نہیں دیتا ،مگر اﷲ تعالیٰ کی زمین پر
کافروں کو حکومت کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔
(۳)ان کا خیال ہے صرف معروفات کا حکم دیتے
جاؤاور منکرات کو نہ چھیڑو۔ منکرات خود بخود مٹتے چلے جائیں گے، جیسے اندھیرے کو
ختم کرنا ہو تو چھوٹی سی موم بتی جلا دو اندھیرا ختم ہوجائے گا ،یہ نہیں کہ ڈنڈا
اٹھا کے پیٹنا شروع کردو۔ بظاہر جہلاء کا یہ استدلال بڑا قوی معلوم ہوتا ہے، مگر
درحقیقت یہ نظریہ سراسر باطل اوردنیا میں فسق وفجور، منکرات وفواحش کے پھیلنے کا
بہت بڑا سبب ہے، عقل و نقل دونوں اس کے شاہد ہیں۔
قرآن و حدیث
میں جہاں بھی امر بالمعروف کا حکم دیا گیاہے، ساتھ ہی نہی عن المنکر کا حکم بھی
دیا گیا ہےم اگر نہی عن المنکر کی کوئی اہمیت و ضرورت نہیں ،امر بالمعروف ہی کافی
ہے تو پھر کیا نعوذ باﷲ،
ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ
کو
یہ فلسفہ سمجھ نہیں آیا کہ ،معر وفات کی دعوت سے تمام منکرات خود بخود مٹ جائیں
گے۔ نیز یہ لازم آئے گا کہ پوری امت کے علماء جو آج تک بوقت استطاعت نہی عن المنکر
کی تینوں صورتوں ‘‘اِلْیَد’’ ،‘‘
باِللِّسَان ’’،‘‘باِلقَلب’’کو فرض
وواجب قرار دیتے آئے ہیں، سب نعوذباﷲ احکام ِشریعت و مزاج ِشریعت سے نابلد تھے۔
عقل و مشاہدہ
سے بھی اس کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ۔انسان طبعی طور پر خواہشِ نفس اور گناہ کی طرف
مائل ہوتا ہے ۔معروفات کی جتنی بھی دعوت دی جائے ،جب تک نہی عن المنکر پر عمل نہ
کیا جائے، معاشرہ سے فواحش اور منکرات کا مٹا ناممکن ہے۔
اب تو اس سے
بڑھ کر خبریں سامنے آرہی ہیں کہ، لوگوں کو دیندار بنانے کیلئے اور ان کو مانوس
کرکے قریب لانے کیلئے ،ان کے ساتھ بدعات او ر گناہوں کی مجلسوں میں شریک ہونے کو،
جائزبلکہ ضروری سمجھا جارہا ہے۔یہ سراسر دین میں تحریف ہے،بجائے اس کے بے دین
لوگوں کو جنت والے اعمال میں اپنے ساتھ شریک کرتے ،یہ جہنم والے اعمال میں شریک
ہوکر اپنے لئے جہنم کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔ پھر ظلم یہ کہ ا س کو جائز بلکہ کار
ثواب اور مزاج نبوت اور دین کی تبلیغ سمجھ رہے ہیں اور اگر واقعۃً ایسا ہے جیسا
شنید ہے تو ان کا ایمان بھی باقی نہیں رہا۔
ایک اصول خوب
سمجھ لیں یاد رکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں وہ یہ ہے کہ
’’لَا
یُقَامُ الدِّیْنُ بِھَدْمِہٖ‘‘
دین کی
خلاف ورزی کرکے اسے گرا کر کبھی بھی دین قائم نہیں کیا جا سکتا۔
آگے چل کر حضرت
اقدس دامت برکاتہم فرماتے ہیں،
اﷲ تعالیٰ ،پہلے انبیاء کرام علیہم السلام، رسول اﷲﷺ
لہٰذا یاد
رکھیں کہ و
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ، علمائے امت اور مشاہدات کا قطعی فیصلہ ہے کہ، کفر و شرک
اور جرائم سے معاشرہ کو پاک کرنے اور دنیا میں اﷲ کے دین کو غالب کرنے کیلئے صرف
زبانی تبلیغ کافی نہیں، جب تک قتال کے ذریعہ کفار کی بڑی بڑی حکومتوں کی شان و
شوکت نہ توڑی جائے۔ اس وقت تک نہ عام کفار اسلام کی حقانیت پر سنجیدگی سے غور
کرسکتے ہیں اور نہ مسلمان معاشرہ ان کفار کے تسلط ، سائنسی ترقی اور مکروہ
پروپیگنڈوں اور سازشوں سے پھیلائے ہوئے فواحش و منکرات سے پاک ہو سکتاہے۔اﷲ تعالیٰ
اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور نافع بنائیں آمین ۔ثم آمین یَا رَبَّ
الْعٰلَمِیْن