اعتراض
اِنَّ
اَفْضَلَ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ( کنزالعُمّال)
ظالم
بادشاہ کے سامنے انصاف اور حق کی بات کہنا بے شک سب سے افضل جہاد ہے ۔
اس
حدیث شریف میں ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کہنے کو جہاد بلکہ سب سے افضل
جہادقرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے زبان سے حق بات کہنابھی جہاد ہے لہٰذا
جہاد کا معنی صرف قتال ہی کو قرار دینا درست نہیں ۔
جواب نمبر ۱:
محدِّثین کرام
نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا اسوقت ہی جہاد
کہلاتا ہے جب کلمہ حق کہنے کی پاداش میں سر قلم ہو جانے کا خدشہ بلکہ یقین ہو ۔
سچ یہ ہے
اِظہارِ حق سلطانِ جابر کے خلاف
خدشہ ہائے جان
کی خاطر ہوا افضل جہاد
اس تشریح کے
مطابق تو یہ حدیث بھی قتال ہی کا مصداق بن گئی کیو نکہ قتال میں دو ہی چیزیں ہوتی
ہیں قتل کرنا اور قتل ہونا ۔
جواب نمبر ۲:
ہم یہ بات
تحریر کر چکے ہیں کہ زبان سے اد ا ہونے والی ایسی تقریر جو قتال ہی کی معاون ہو وہ
قتال ہی کا حصہ شمار ہوتی ہے اور اس حدیث شریف میں بھی بالکل یہی صورت ہے ۔
جواب نمبر ۳:
بسا اوقات کفار
کے سامنے زبان کے الفاظ تیر و تلوار سے بھی زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں اور وہ جہاد
ہی کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کفار کے حوصلے پست کرکے یا کفار کے دلوں میں
مسلمانوں کا رعب ڈال کر کفار کوجنگ کرنے سے باز رکھتے ہیں یا مسلمانوں کے حو صلے
بلنداورانکے دلوں کو مضبوط کر کے مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں
۔
مثال:
حضرت انسؓ فرماتے
ہیں کہ جب حضرت پاک عمرۃ القضاء کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو عبداﷲ بن رواحہ
ؓ( اپنی گردن میں تلوار ڈالے حضرت پاک کی اونٹنی کی مہار پکڑے ہوئے) آگے آگے چل
رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے
خَلُّوْ
ا بَنِیْ الْکُفَّاْرِ عَنْ سَبِیْلِہٖ
اَلْیَوْمَ
نَضْرِبُکُمْ عَلٰی تَنْزِیْلِہٖ
ضَرْباً
یُّزِیْلُ الْھَامَ عَنْ مَّقِیْلِہٖ
وَیُزْھِلُ
الْخَلِیْلَ عَنْ خَلِیْلِہٖ
ترجمہ :
اے کافرو ہٹ
جاؤ آپ ﷺکا
راستہ چھوڑ دو ، آج حضرت پاک ﷺ کی مکہ مکرمہ آمد پر تم کو ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑیاں
جسموں سے الگ کر دے گی ، اور دوست کو دوست سے جدا کر دیں گے۔
حضرت عمرؓنے
فرمایا
یَا
ابْنَ رَوَاحَۃَ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللہِﷺ
وَفِیْ حَرَمِ اللہِ تَعَالٰی تَقُوْلُ شِعْرًا۔
اے ابن رواحہ
تم حرم مکہ میں حضرت پاک کے سامنے شعر پڑھتے ہو؟ ( یعنی روکنا چاہا))
حضرت پاک ﷺ نے
فرمایا
خَلِّ
عَنْہٗ یَا عُمَرْخَلِّ عَنْہٗ یَاعُمَرْ فَلَھِیَ اَسْرَعُ فِیْھِمْ مِنْ نَّضْحِ
النَّبَلِ۔
اے عمر! ان کو
مت روکو کیونکہ آج عبداﷲ بن رواحہؓ کے اشعار کفار پر تیروں سے زیادہ سخت ہیں۔
شمائل ترمذی)
)
لہٰذااس پوری
گفتگو سے ثابت ہوا کہ صر ف اس حدیث شریف کی وجہ سے مطلقاً حق بات کہنے کو جہاد فی
سبیل اﷲقرار دینا قطعا درست نہیں ہے ۔