جَنَّاتُ
عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ
وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ (۲۳)
سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (۲۴) [سورۃ
الرَّعد]
’’(یعنی)
ہمیشہ رہنے کے باغات جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیبیوں اور
اولاد میں سے جو نیکوکار ہوں گے وہ بھی (بہشت میں جائیں گے) اور فرشتے (بہشت کے)
ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے۔(اور کہیں گے) تم پر رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت
قدمی کا بدلہ ہے اور عاقبت کا گھر خوب (گھر) ہے۔‘‘
جنت دنیا سے
چار طریقوں سے مختلف ہے:
۱۔
یہ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی جگہ ہے۔ اللہ تعالی نے دنیا کے بارے میں
فرمایاہے: ’ ’متاع
الغرور‘‘(دھوکے کا سازوسامان) جبکہ جنت
کے بارے میں یہ کہا: ’’آخرت کی زندگی ہی
بہتر اور ہمیشگی کی ہے‘‘۔
۲۔
مقدار میں بہت بڑا فرق ہے۔
۳۔
معیار میں بہت بڑا فرق ہے۔
۴۔
دنیا کی ہر چیز آلودہ ہے جبکہ آخرت کی ہر چیز خالص ہے۔
دنیا عارضی
ہے اور آخرت مستقل ٹھکانا ہے۔ آپ دنیا میں کتنا عرصہ رہیں گے؟ میں الجزیرہ پر
خبروں کی ہیڈلائن پڑھ رہا تھا، اس میں تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ عمر گزانے والا
شخص جاپان میں فوت ہو گیا ہے جس کی عمر ایک سو چودہ برس تھی۔ یہ سب سے زیادہ ہے۔ ایک
سو چودہ۔ آخرت میں آپ کتنا عرصہ رہیں گے۔ لا متناہی۔ اب اگر ہمیں دنیا اور آخرت کا
تناسب نکالنا ہو تو ہم یہ کیسے نکالیں گے؟ اب دنیا کو آخرت پر تقسیم کریں۔ تاہم ۱۱۴
کو لامتناہی پر تقسیم کریں، کیا جواب ہے؟ حساب بتاتا ہے کہ اس کا جواب صفر ہے۔ کچھ
بھی نہیں۔ اس میں تو کوئی تناسب بھی نہیں ہے! ۔
جنت میں ہر
چیز صاف ستھری ہے۔ ہر چیز خالص ہے۔ ادھر کوئی پیشاب یا پسینہ نہیں ہے۔ ہمارے جسم
الگ ہی قسم کے ہونگے۔ وہاں کی زندگی ہمیشہ کی ہے۔ ادھر وقت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جنت کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہوگی کہ وہ جو بھی کریں، جب بھی کریں اور جب تک کرتے رہیں۔
ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے تخت پر بیٹھے چالیس سال تک اپنی بیوی سے باتیں
کرتا رہے۔
سبحان اللہ!
جب آپ وقت کے اس تصور کے بارے میں سوچتے ہیں۔کیونکہ آخرت میں وقت محدود نہیں ہے۔
ادھر تو ہمیشگی اور لامتناہی ہے۔ جب آپ اپنے محل سے باہر آئیں اور مثلاً ایک پھول
دیکھیں اور آپ کو وہ پسند آئے، تو آپ ادھر اسے دس سال تک دیکھ سکتے ہیں! آپ نے کسی
کو وقت نہیں دیا ہوا! آپ کو کوئی کام نہیں کرنا۔ آپ اگر چاہیں تو وہاں سو سال تک بیٹھ
سکتے ہیں۔ آپ پر کوئی زور زبردستی نہیں، اس تصور کو سوچنا تھوڑا مشکل ہے۔ جب آپ اس
تصور کو آگے لے کر چلیں، تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ پورا ایک سال حضرت محمد ﷺ کے
ساتھ گزاریں گے۔ مثال کے طور پر اگر آپ تاریخ کی کتابیں پڑھ رہے تھے اور آپ کو
حضرت عمر ؓ بن خطاب کے بارے میں کسی معاملے میں وضاحت چاہیے ہو تو آپ ان کے پاس جا
کر ان سے ملاقات کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ پورا ایک مہینہ گزار کر، یہ گفتگو کر
سکتے ہیں کہ کیا ہوا تھا۔ وہ آپ کو وقت کیوں نہیں دیں گے جبکہ اُدھر وقت کا کوئی
مسئلہ نہیں ہوگا۔ اگر وہ شروع کے اربوں سالوں تک مصروف ہوں بھی، تو آپ ان سے بعد میں
مل سکتے ہیں۔