اعتراض
فَوَاﷲِ لَاَنْ یَّھْدِیَ اﷲُ بِکَ رَجُلًا وَّاحِدًا
خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ(متفق علیہ)
غزوہ
خیبر کے موقع پر حضرت پاک نے حضرت علیؓ سے
ارشاد فرمایا کہ اے علی تیری وجہ سے ایک آدمی کا ہدایت پر آجا ناسو سرخ اونٹوں کے
صدقہ کرنے سے بہتر ہے ۔اس لئے
ہمیں بھی کافروں کے قتل پر زور خرچ کرنے کی بجائے ان کے ایمان پر آنے کی فکر کرنی
چاہیے۔
جواب نمبر ا
:
یہ بات تو درست
ہے کہ ایک کافر کا اسلام قبول کرنا سو سرخ اونٹوں کے صدقہ کرنے سے بہتر ہے اور
واقعۃ ًکافروں کے ایمان لانے کی فکر بھی کرنی چاہیے مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہو گا
کہ جوکافر ایمان نہ لائے بلکہ اشاعت ِاسلام کے راستہ میں رکاوٹ بن کر مزید دوسرے
لوگو ں کو بھی ہدایت پر آنے سے روکے تو ایسے کافروں کو قتل بھی نہیں کرنا چاہیے ،
جبکہ کفار کا قتل ہی تو دراصل دوسرے کفار کے اسلام میں داخل ہونے کا ذریعہ بنتا ہے
۔
جواب نمبر ۲:
کیا حضرت پاک ﷺ کا
ارشاد ِگرامی سننے کے بعد اسی غزوہ خیبر میں حضرت علی ؓنے پھر کسی کافر کو قتل
نہیں کیا ؟اور دوسرے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے کفار کو قتل کرنا چھوڑ دیا؟ اور
مرحب کا حشر کس نے کیا تھا ؟
جواب نمبر ۳:
اگر اس حدیث کا
یہی مطلب ہے جو میرے بھائی ،بزرگ اور دوست لے رہے ہیں تو پھر ان احادیث کا کیا
مطلب لیں گے جس میں حضرت پاک ﷺ نے کفار کے قتل کرنے کی ترغیب دی ہے اور ایک کافر کے قتل پر
جنت کی بشارت دی ہے ۔
بجا ارشاد ہے
ایمان لانا ایک کافر کا
مسلمانوں کے حق
سرخ سو اونٹوں سے بہتر ہے
مگر سچ پو چھئے
تو اس کا یہ ہر گز نہیں مطلب
فسادی کافروں
کو قتل کرنا اس سے کم تر ہے
اس لئے میری
درد مندانہ گزارش ہے کہ کفار کو ایمان پر لانے کی فکر اگر ضروری ہے اور یقینا
ضروری ہے تو سر کش کفار کی سر کشی کو توڑنے اور بد دماغ کفار کے دماغ کو درست کرنے
کی فکر بھی ضروری ہے ۔
تا کہ اسلام
پھیل جائے اور ہمار اایمان پختہ ہو جائے اور اسلام کے غلبہ شان و شوکت کو دیکھ کر
لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں۔اﷲتعالیٰ ہمیں سارے دین کو سمجھنے اور سار ے دین
پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین یَارَبَّ الْعٰلَمَیْن۔٭٭٭