عَنْ
عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍ وقَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ فَاسْتَأْذَنَہٗ
فِیْ الْجِہَادِ فَقَالَ اَحَیٌّ وَّالِدَاکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِیْھِمَا
فَجَاھِدْ
مشکوۃ کتاب الجہاد)۔
حضرت
عبداﷲ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت پاک کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد میں جانے کی
اجازت مانگی تو حضرت پاک نے پوچھا کہ تمھا رے والدین
زندہ ہیں ؟عرض کیا جی ہاں تو حضرت پا ک نے
فرمایا کہ تم والدین کی خدمت کر کے جہاد کرو یعنی والدین کی خدمت کرو اور تمھارا
یہی جہاد ہے ۔
اب اس
حدیث شریف میں والدین کی خدمت کرنے کو جہاد قرار دیا ، تو معلوم ہوا کہ صرف قتال
ہی جہاد نہیں بلکہ والدین کی خدمت کرنا بھی جہاد ہے ۔
اس میں شک نہیں
کہ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق والدین کی خدمت ہے ۔ والد کی رضا کو رب کی رضا
فرمایا گیا والدہ کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے ۔اولاد کا مال والد کا مال قرار
دیا گیا ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گنا ہ والدین کی نافرمانی کو بتلایا گیا
۔والدین کے نافرمان کے لئے ہلاکت و بربادی کی جبرائیل علیہ السلام نے بددعا کی اور
حضرت پاک ﷺ نے
آمین فرمائی ۔والدہ کی نافرمانی کرنے والے کی زبان پر موت کے وقت کلمہ کا جاری نہ
ہونا ، روح کا بدن سے نہ نکلنا اور تڑپتے رہنا اور والدہ کے معاف کرنے پر زبان پر
کلمہ کا جاری ہو جانا اور فورًا روح کا نکل جانا احادیث میں آیا ہے ۔
والدین کے ان
حقوق یا خدمتِ والدین پر وارد شدہ فضائل اور نافرمانی کا بہت بڑا جرم ہونا اپنی
جگہ پر مسلم ہے مگر اس سے مطلقاً والدین کی خدمت کو جہاد فی سبیل اﷲقرار دینا کسی
بھی طرح درست نہیں ۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اﷲکا معنی متعین ہے اور وہ ہے قتال فی
سبیل اﷲ۔ باقی رہا یہ اشکال کہ پھر حدیث شریف میں والدین کی خدمت کو جہاد کیوں
قرار دیا گیا تو اس کا آسان اورسیدھا ساجواب یہ ہے کہ حضرت پاک ﷺ
صرف نبی ہی نہ تھے بلکہ نبی و رسول ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی ، قاضی ، امام ، خطیب ،
مبلغ اور امیر المجاہدین بھی تھے۔اگرچہ آپ ﷺ کا اصل منصب تو نبوت ہی تھا
مگر امت کو تعلیم دینے کے لئے ان باقی سار ے مناصب پر حضرت پاکﷺ ہی
فائز تھے۔صحابی ِرسولﷺ تو
جہاد کی نیت کے ساتھ حاضر ہوئے مگر حضرت پاک ﷺ نے انکی تشکیل بجائے میدان
ِجنگ کے والدین کی خدمت پر کر د ی لہٰذا اس صحابی کا والدین کی خدمت کرنا صرف اس
بنیاد پر جہاد نہیں تھاکہ والدین کی خدمت کرنا جہاد ہے بلکہ وہ اس بنیاد پر جہاد
تھا کہ وہ امیر کی اطا عت و تشکیل کے اندر تھے ۔
حیلے بہانے کر
کے بچائے جو جان کو
دراصل ذاتِ حق
سے محبت نہیں اسے
مانا کہ والدین
کی خدمت بھی ہے جہاد
لیکن محاذِ جنگ
سے نسبت نہیں اسے
توضیح:
والدین کی خدمت
تو بہت بڑی بات ہے اگر امیر المجاہدین کسی شخص کو عین میدان جنگ سے پیچھے بھیج دیں
اور بیت الخلاء کی صفائی پر لگا دیں تو یہ بیت الخلاء کی صفائی بھی جہاد ہی کہلائے
گی بایں معنی کے اس پر بھی جہاد کا مکمل ثواب ملے گا ۔
یہ واقعہ صرف
اس صحابی ؓکے ساتھ خاص نہیں بلکہ اسکی اور بھی بہت سی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔
مثال:
حضرت عثمان ؓ
بدری صحابہ رضی اﷲ عنہم میں شمار ہوتے ہیں اور حضرت پاک نے انکو بدر کے مالِ غنیمت
میں سے برابر کا حصہ بھی دیا حالانکہ حضرت عثما نؓ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے
تھے بلکہ اپنی بیوی اور حضرت پاک کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکی
بیماری کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال میں مشغول تھے مگر ان کو بدریوں میں شمار کرنے
کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت عثمان ؓبیوی کی تیمارداری کے لئے خود نہیں ٹھہرے تھے
بلکہ حضرت پاک نے انکی تشکیل فرمائی تھی ۔تو کیا اس حدیث
شریف کی وجہ سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کی خدمت اور بیمار پرسی کو جہاد کہتا ہے جب
کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ ایک طرح حضرت عثمانؓ کا واقعہ زیادہ مضبوط ہے
کیونکہ ان کومالِ غنیمت سے حصہ بھی ملا حالانکہ جنگ میں شریک بھی نہیں تھے ۔
تاریخ میں حضرت
عثما ن ؓکے علاوہ مزید آٹھ ایسے صحابہ رضی اﷲ عنہم کے نام ملتے ہیں جو غزوہ بدر
میں شریک نہ ہونے کے باوجود بدری کہلاتے ہیں وہ صرف اس وجہ سے کہ انکی تشکیل خود
حضرت پاکﷺ نے
فرمائی تھی ۔ وہ آٹھ صحابہ رضی اﷲ عنہم یہ ہیں ۔
(۱)حضرت طلحہ ؓ (۲) حضرت
سعید بن زید ؓ(۳) حضرت ابو لبابہ انصاریؓ(۴)
حضرت عاصم بن
عدیؓ(۵) حضرت حارث بن حاطبؓ(۶) حضرت حارث بن
صمہؓ (۷) حضرت خوات بن جبیرؓ(۸) حضرت جعفر ؓ
۔
خلاصہ کلام
لہٰذا اس حدیث
شریف کی بنا ء پر بغیر امیر کی اجازت اور تشکیل کے جہاد کو چھوڑ کر از خود والدین
کی خدمت میں لگے رہنا اور اس خدمت کو جہاد سمجھ کر میدانِ جنگ سے منہ موڑنا اور
پھر خود کو مجاہد کہنا یا کہلوانا اپنے آپکو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔
‘‘ خیال است و
محال است وجنوں’’
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ