اس
اعتراض کو ذکر کرنے سے پہلے ایک واقعہ عرض کردیتا ہوں جو خودمیرے ساتھ پیش آیا ۔
ایک مرتبہ ضلع سرگودھا کے قصبہ مڈ ھ رانجھا میں اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ ملاقات
کی غرض سے گیا تو میرے مجاہد ساتھیوں نے کہا کہ ہماری جامع مسجد شکرانی میں تبلیغی
جماعت کے حضرات آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے تو ہمیں پریشان کردیا ہے ۔
وہ
کہتے ہیں کہ حدیث شریف میں آیاہے۔
’’ مَنْ
تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُمِأَۃِ شَھِیْدٍ‘‘
جس شخص
نے میری ایک سنت کو ایسے دور میں تھامے رکھا جب فساد کا دورہو تو اسکو سو شہیدوں
کا اجر ملے گا ۔
آپ لوگ
خواہ مخواہ افغانستان کے پہاڑوں میں جا کر مشقتیں برداشت کرتے ہیں،گھر سے دور رہ
کر والدین کو بھی پریشان کرتے ہیں اگر جہاد کے راستہ میں شھید بھی ہو گئے تو صرف
اکیلے شہید ہو ں گے اور ایک شہید کا اجر ملے گا اس لئے ادھر ہی رہ کر دین کی محنت
کرو ، ہر روز کئی کئی سنتیں زندہ کرو اور ہزاروں بلکہ لاکھوں شھیدوں کا اجر حاصل
کرو ۔
واقعہ یہ ہے کہ
اس حدیث شریف اور اس جیسی دیگر احادیث کریمہ جو کہ دین کی اشاعت کے لئے تھیں آڑ
بنا کر بعض دین دشمن منافقین یا بعض سادہ لوح دین دوست مسلمان دوسرے مسلمانوں کو
دھوکہ دیتے ہیں ۔ خود بھی تباہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تباہ کرتے ہیں اس لئے
میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اس حدیث شریف کی وضاحت کردوں۔
جواب
ایک اہم بات تو
یہ ذہن نشین فرمالیں کہ سنت کی دو قسمیں ہیں
سنتِ عادت و
سنتِ عبادت
یعنی حضرت پاک نے
بعض اعمال اﷲتعالیٰ کی عبادت کے طور پر فرما ئے اور بعض اپنے بشری اور انسانی
تقاضے کی بناء پر ۔اگرچہ حضرت پاک کی ساری زندگی عبادت ہی ہے ۔
دیکھئے جیسے سر
مبارک میں تیل ، کنگھی اور کھانے کے بعد مسواک ،سوتے وقت مسواک کھانے سے قبل ہاتھ
دھونا ، میٹھے کااستعمال ، جوتے کا استعمال وغیرہ یہ وہ اعمال ہیں جن کو حضرت پاک نے
بطورِ عادت اور ضرورت کے استعمال فرمایا ہے ۔
مگر وضو کے وقت
مسواک کا استعمال، نماز کے لئے وضو ، غسلِ جنابت و دیگر سارے اعمال ِشریعت نماز ،
روزہ ، حج وغیرہ ان اعمال کو حضرت پاک نے عبادت کے طور پر فرمایا ہے ۔
اس حدیث میں
سنت سے مرادوہ سنت ہے جس کوحضرت پاک نے عبادت کے طور پر فرمایا ہو اگرچہ ہمارے لئے
وہ سنتیں بھی قابل اتباع ہیں جن کو حضرت پاک نے عادت کے طور پر فرمایا ہے اور وہ
بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں ہیں آپ اسکو مزید وضاحت کے لئے یوں بھی کہ سکتے ہیں
کہ سنت کی دو قسمیں ہیں سنت ِطبیعہ اور سنت ِشرعیہ اور واجب الاتباع سنت شرعیہ ہے
نہ کہ سنت طبیعہ۔
سنت سے مراد
حکم ِشرعی کو زندہ کرنا ہے جیسا کہ دوسری روایت کے الفاظ ہیں ’’مَنْ اَحْیٰی سُنَّتِیْ‘‘۔ یا حکم شرعی کو مضبوطی سے تھامے
رکھنا جیسا کہ اسی روایت کے الفاظ ہیں اور احکاماتِ شرعیہ میں سے جس قدر ظلم حکم
شرعی جہاد فی سبیل اﷲ پر ہوا ہے کسی اور پر نہیں ہوا۔ غیروں نے تو کمی نہیں کی،
مگر اپنوں نے بھی ہاتھ صاف کئے ہیں۔ غیروں کی عداوت تو سمجھ میں آتی ہے، مگر اپنوں
کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے ۔اور جہاد ایک ایسا شرعی حکم ہے جسکا زندہ ہونا پورے
دین کا زندہ ہونا ہے اور اس کا ختم ہونا پورے دین کا ختم ہونا ہے۔ اسی بناء پر جس
قدر اس حکم پر زور دیا گیا ہے شاید شریعت نے کسی اور پر اتنا زور نہیں دیا اور یہ
چونکہ پورے دین کی بنیاد ہے غالباً اسی لئے حدیث مبارک میں اسکو پورادین قراردیا
ہے ، جیسا کہ حدیث شریف ہے ۔
اِذَاَ
تَبَایَعْتُمْ بِا لْعِیْنَۃِ وَ اَخَذْتُمْ بِاَذْنَابِ الْبَقَرِ وَرَضِیْتُمْ
بِالزَّرْعِ وَتَرَکْتُمُ الْجِھَادَ سَلَّطَ اﷲُ عَلَیْکُمْ ذُلاَّ لَا
یَنْزِعُہٗ حَتٰی تَرْجِعُوْااِلٰی دِیْنِکُمْ
ترجمہ:
جب تم دنیا وی
مال و دولت کے پیچھے پڑ جاو گے اور تم بیلوں کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی کے
پیچھے پڑکر جہاد کو چھوڑ بیٹھو گے تو اﷲپاک تم پر ایسی ذلت مسلط فرمادیں گے جو دین
کی طرف واپس آئے بغیر تم سے نہیں ہٹے گی۔
اس حدیث شریف
میں دین سے مراد جہاد ہے ۔
لہذا جہاد کرنا
اس حدیث کا اعلی و ارفع اور سب سے بڑا مصداق ہے ۔
(بذل المجہود شرح ابی داؤد )