ہم
مجاہدین کو دیکھتے ہیں کہ ان کے اعمال شر یعت کے مطابق نہیں۔ انکی شلواریں ٹخنوں
سے نیچے ہوتی ہیں ۔انکی داڑھی بالکل مونڈھی ہوئی ہوتی ہے ۔یا حدِ واجب سے بھی کم
تراشی ہوئی ہوتی ہے۔ انکے گھر کا ماحول شریعت کے مخالف ہوتا ہے۔
یہ
تصویریں کھنچواتے ہیں ،وغیرہ وغیرہ ...
جواب
حقیقت یہ ہے کہ
یہ مجاہدین پر الزامات اور بہتا نات ہیں کہ، مجاہدین غیر شرعی افعال کے مرتکب ہوتے
ہیں۔ہوتا یہ ہے کہ بعض افراد یا بعض جماعتیں اپنے مخصوص مفادات کی بنا پر جہاد کا
نام استعمال کرتی ہیں اور مجاہدین کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔لہٰذا انکو دیکھ کر
جہاد پر اعتراض کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چور مسجد میں آئے اور نمازی کا جوتا
چوری کرلے ، یا کسی کی جیب تراش لے تو آپ یہی کہیں گے کہ یہ چور تھا، جو مسجد میں
چوری کے لئے آیا تھا نہ کہ نمازی تھا، جو کہ چوری کر کے چلا گیا ۔اس چوری کی خاطر
مسجد میں آنے والے شخص کو دیکھ کر فریضہ نماز یا دیگر مخلص نمازیوں پر کوئی عقل
مند شخص اعتراض نہیں کر تا ۔
واقعہ :
میں ایک مرتبہ
سفرِ جہاد میں کینیا کے شہر نیروبی میں تھا ۔پتہ چلا کہ پاکستا ن سے تبلیغی جماعت
کے کچھ حضرات ایک سال کے لئے چل رہے ہیں اور مرکز میں قیا م پذیر ہیں ۔تو میں بھی
انکی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔مگر وہ حضرات بجائے میری حوصلہ افزائی کرنے کے یا کم
از کم ہم وطن ہونے کی وجہ سے محبت کا اظہار کرتے ،الٹا میری سرزنش شروع کر دی اور
طرح طرح کے اعتراضات اور شبہات سے میری مہمان نوازی کی ۔ان میں ایک ڈاکٹر تھے جن
کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر وزیر آباد سے تھا ، ان کا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی
ماشااﷲ مجاہد ،جس کا ان کو سخت رنج تھا، وہ فرمانے لگے کہ مولانا صاحب !یہ کیسا
جہاد ہے کہ مجاہدین تصویریں کھنچوا رہے ہیں ،داڑھیاں کٹا رہے ہیں ،سڑکوں پر نکل کر
اپنی تصویریں اور مووی بنوا کر امریکہ سے کشمیر کی آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں
۔کیا یہ سنت ہے اور کیا اسی کا نام جہاد ہے ؟
( میں سمجھ گیا
کہ ڈاکٹر صاحب کو کن لوگوں کو دیکھ کر مجاہدین کے جہاد پر شبہہ ہو اہے)۔
میں نے عرض کیا
کہ اگر جہاد شرعی نہیں ہو رہا، تو تبلیغ و دعوت کا کام بھی شرعی نہیں ہو رہا
۔دیکھئے بعض لوگ اپنے سر پر سبز پگڑیاں باندھے ہو ئے سنت کا نام لیتے ہیں،مگر وہ
تو سراسر شرک اور بدعات کو رواج دے رہے ہیں۔ تو کیا بدعت کی ترویج اور اشاعت کا
نام تبلیغ ہے ؟تو ڈاکٹر صاحب فوراً فرمانے لگے ہم تو یہ کام نہیں کرتے وہ لوگ اور
ہیں آپ ان کو دیکھ کر ہمارے کام پر اعتراض نہیں کر سکتے ۔تو میں نے بھی فوراً عرض
کیا کہ جن کارناموں کا ذکر آپ نے فرمایا وہ ہم بھی نہیں کرتے، بلکہ وہ تو اور لوگ
ہیں۔ تو جس طرح ان بدعتی لوگوں کے کام کو دیکھ کر ہم اہل حق کی دعوت و تبلیغ پر
اعتراض نہیں کرسکتے ۔تو پھر چند دوسرے ایسے ہی لوگوں کے کام کو دیکھ کر جہاد پر
کیسے اعتراض کیا جاسکتا ہے؟
جواب:
اگر کوئی شخص
گناہوں کے ساتھ بھی جہاد کرتا رہتا ہے، اور اﷲ کے راستہ میں لڑتا ہو ا شہید ہو
جاتا ہے تو اسکے سارے گناہ معاف ہو جانے کا وعدہ ہے۔ بلکہ صرف یہ نہیں کہ اسکے
اپنے گناہ معاف ہوں گے ۔بلکہ یہ اپنے خاندان کے مزید ستر ایسے آدمیوں کی بھی سفارش
کرے گا، جن پر دوزخ واجب ہو چکی ہو گی اور اسکی سفارش قبول بھی ہو گی ۔
شہادت تو بڑی
نعمت الٰہیہ ہے۔ میں صرف ایک واقعہ عہد ِنبوت کا عرض کرتا ہوں جس سے آپ کو یہ بات
بخوبی سمجھ آجائے گی کہ اگر کوئی شخص بدعمل ہو، اور جہاد میں شریک ہو تو حضرت پاک کا ایسے شخص کے
ساتھ طرز عمل کیا تھا، اور ہمارا طرز عمل کیا ہے ۔
’’ عَنِ
ابْنِ عَائِذٍ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ فِیْ
جَنَازَۃِِرَجُلٍ فَلَمَّا وُضِعَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لَا تُصَلِّ
عَلَیْہِ یَارَسُوْلَ اللہِ فَاِنَّہُ رَجُلٌ فَاجِرٌ فَالْتَفَتَ رَسُوْلُ
اللہِ اِلٰی اَصْحَابِہٖ
فَقَالَ ھَلْ رََّاٰہُ اَحَدٌ مِّنْکُمْ عَلٰی عَمَلِ الْاِسْلَامِ فَقَالَ رَجُلٌ
نَعَمْ یَارَسُوْلَ اﷲِحَرَسَ لَیْلَۃً فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَصَلّٰی عَلَیْہٖ
رَسُوْلُ اللہِ وَحَثّٰی عَلَیْہِ
التُّرَابَ وَقاَل اَصْحَا بُکَ یَظُنُّوْنَ اَنَّکَ مِنْ اَھْلِ النَّارِ وَاَنَا
اَشْھَدُ اَنَّکَ مِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِوَقَالَ یَا عُمَرُ اِنَّکَ لَا تُسْئَلُ
عَنْ اَعْمَالِ النَّاسِ وَلٰکِنْ تُسْئَلُ عَنِ الْفِطْرَۃِ۔(مشکوۃ کتاب الجہاد)۔
حضرت ا بن عائذ
ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک ایک شخص کا
جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لائے ،جب میت کو رکھا گیا تو حضرت عمر فاروقؓ نے عرض
کیا کہ یا رسول اﷲ اس شخص کی نماز جنازہ نہ پڑھیں کیو نکہ یہ تو
فاسق ( یعنی بد عمل ) ہے ۔حضرت پاک اپنے صحابہ رضی اﷲ
عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا تم میں سے کسی شخص نے اسکو کوئی نیک عمل کرتے
ہوئے دیکھا ہے؟
تو ایک شخص نے
عرض کیا جی ہاں یا رسول اﷲ اس نے ایک رات میدانِ جہاد میں پہرا دیا تھا تو حضرت پاک نے اسکی نما ز جنازہ پڑھائی ۔پھر اپنے مبارک
ہاتھوں سے اسکی قبر پر مٹی ڈالی اور مزید ارشاد فرمایا کہ تیرے ساتھی تو یہ گمان
کرتے ہیں، کہ تو جہنم میں جائے گا مگر میں گواہی دیتا ہوں کہ تو پکا جنتی ہے ۔پھر
حضرت پاک نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! تجھ سے لوگوں کے
اعما ل کے بار ے میں نہیں پوچھاجا ئے گالیکن دین کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
اب میرے دوستو
اور بزرگو! دیکھیں اگر ہمارے علاقہ میں کسی ایسے شخص کا جنازہ ہو، جس نے چند دن
جہاد میں گزارے ہوں اور پھر بد اعمالیوں میں خدا نخواستہ مبتلا ہو گیا ہو، بلکہ
اگر کسی ایسے شخص کا جنازہ آجائے، جو کبھی بد عمل رہا ہو اگرچہ وہ اس سے تو بہ بھی
کر چکا ہو، ہمارا طرز عمل کیا ہوتا ہے اور ہماری ایک بالشت کی زبان کیا کچھ زہر
اگلتی ہے۔
اﷲ تعالیٰ ہم
کو پورے دین کی سمجھ عطافرمائے ۔آمین یَارَبَّ الْعٰلَمِیْن۔
میری ذاتی
رائے :
میں تو یہ کہتا
ہوں کہ موجودہ وقت میں،جہاد فرضِ عین ہونے کے بعد ،نماز چھوڑ کر جہاد کرنے والا
مجاہد، جہاد کو چھوڑکو بیت اﷲ کے طواف کرنے والے عابد سے افضل ہے ۔
ایک وجہ تو یہ
ہے کہ یہ دونوں ایک ایک گناہ کے مرتکب ہیں ۔مجاہد نماز کو چھوڑ کر کبیرہ گنا ہ کا
ارتکاب کرتا ہے، تو عابداور صوفی بھی ایک فرض عین کو چھوڑ کر گناہ کبیرہ کا مرتکب
ہے ۔ مگردونوں کے گناہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجاہد کے جرم کا نقصان تو صرف
اسکی ذات کو ہو گا، جبکہ اس صوفی اور عابد کے گناہ کا نقصان اسکی ذات کو بھی ہو گا
اورپوری امت کوبھی ہو گا۔
دوسری وجہ یہ
ہے کہ اگر مجاہد میدان جنگ میں لڑتا ہو ا شہید ہو گیا، تو اسکے لئے وعدہ ہے
‘‘اَلسَّیْفُ
مَحَّاءٌ لِّلذُّنُوْبِ’’۔کہ
تلوار گناہوں کو مٹا دینے والی ہے۔
اور‘‘اَلْقَتْلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یُّکَفِّرُ کُلَّ شَیْیٍٔ
اِلَّا الدَّیْن’’۔( مسلم)
اﷲ
تعالیٰ کے راستہ میں قتل ہو جانا، سوائے قرض کے ہر چیز کا کفارہ ہے
مگر عابد کے
لئے اس فرض ِعین کے ترک پر تو کوئی بخشش کا وعدہ نہیں ،بلکہ اس کے بارے میں نفاق
کی موت کاڈر ہے ۔قیامت کے دن اس کے جسم پر واضح داغ یعنی ترک جہاد کے نشانات ہونے
کی وعید ہے ۔
ہاں اگر
اﷲتعالی اپنا فضل فرمادیں تو اور بات ہے ۔
تنبیہ:
میری ان
گزارشات کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ مجاہدین میں بالکل خامیا ں نہیں۔ کیونکہ مجاہدین
بھی انسان ہیں، نہ کہ فرشتے۔ اور ان سے غلطیاں ہوسکتی ہیں، بلکہ ہوتی ہیں۔ مگر ان
غلطیوں کی وجہ سے جہاد کو چھوڑا نہیں جا سکتا ہے، اور نہ ہی جہاد پر اعتراضات کئے
جا سکتے ہیں ۔ہاں البتہ احسن طریقہ سے مجاہدین کی بھی اصلاح کی ضرورکوشش کرنی
چاہیے۔
ملحوظہ :
یہ بات بھی طے
شدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد و نصرت بھی اسی وقت آئے گی، جب مجاہدین اﷲ تعالیٰ کو
راضی رکھیں گے اور اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر میں لگے رہیں گے ۔اس لئے اگرصحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم کی فتح میں تا خیر مسواک چھوٹنے کی وجہ سے ہو سکتی ہے، تو پھر ہم
کس با غ کی مولی ہیں ؟
اس لئے مجاہدین
کو بطورِخاص چاہئے کہ، وہ اپنی زندگی دین کے مطابق رکھیں اور ظاہر و باطن کا خیا ل
فرمائیں،بلکہ عام لوگوں سے زیادہ اپنے اعمال کو سنت کے مطابق بنائیں ۔فرائض و
واجبات کے علاوہ سنن اور مستحبات کی بھی رعایت کریں۔اﷲتعالیٰ ہم سب کو پورے دین پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔