قَدِمَ
عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ قَوْمٌ غُزَاۃٌ فَقَالَ قَدِ مْتُمْ بِخَیْرِ مَقْدَمٍ
مِّنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلَی الْجِہَادِ الْاَکْبَرِ قِیْلَ وَمَا
الْجِہَادُ الْاَکْبَرُ قَالَ مُجَاہَدَۃُ الْعَبْدِہَوَاہٗ
مجاہدین
کی ایک جماعت حضرت پاک کی خدمت میں آئی تو آپ نے ارشاد فرمایا تم جہاد اصغر سے
جہاد اکبر کی طرف خوب بہتر طور پر لوٹ آئے ہو۔ کسی نے عرض کیا کہ جہاد اکبر کیا
ہے؟ تو حضرت پاک نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد
کرنا۔(تفسیر کشاف)
اس
روایت میں اس بات کی تصریح ہے کہ حضرت پاک نے اپنی زبانِ مبارک سے مجاہدہ اور
اصلاحِ نفس کو جہاد ہی نہیں بلکہ جہاد اکبر فرمایا ہے اس روایت کی اس قدر وضاحت کے
بعد تو جہاد فی سبیل اﷲ کا معنی صرف قتال سے کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
آئیے ہم نہایت
اختصار کے ساتھ پہلے تو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس روایت کے بارے میں محدثین
ِکرام کیا رائے رکھتے ہیں۔
صاحبِ مختصر
علامہ محمد طاہر پٹنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
رَجَعْنَامِنَ
الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلٰی الْجِہَادِ الْاَکْبَرضَعِیْفٌ۔ (تذکرۃ الموضوعات)
کہ یہ روایت ضعیف ہے ۔
علامہ شمس
الدین ذہبی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ۔
مُحَمَّدُ
بْنُ زِیَادٍ یَّقُوْلُ سَمِعْتُ ابْنَ اَبِیْ عَبْلَۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ لِمَنْ
جَاءَ مِنَ الْغَزْوقَدْ جِئْتُمْ مِّنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلٰی الْجِہَادِ
الْاَکْبَر جِہَادُ الْقَلْبَ(سِیَرُ اَعْلَامِ النُّبَلَا ج۶)
یہ حدیث نہیں
بلکہ ابراہیم ابن ابی عبلۃ کا قول ہے۔
علامہ سید
محمود آلوسی ؒمفتی بغداد فرماتے ہیں
وَالْحَدِیْثُ
الَّذِیْ ذَکَرَہٗ لَا اَصْلَ لَہُ
اس
حدیث کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے (روح المعانی ج۳)
حضرت علامہ
امام ابن تیمیہ رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
اَمَّاْ
الْحَدِیْثُ الَّذِیْ یَرْوِیْہٖ بَعْضُہُمْ اَنَّہُ قَالَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ
رَجَعْنَامِنَ الْجِہَادِ الْاَصْغَرِاِلٰی الْجِہَادِ الْاَکْبَرفَلَا اَصْلَ
لَہٗ
اس
روایت کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔
اگر اس کو حدیث
تسلیم کرلیا جائے تو یہ قرآن کریم کی کئی آیات مبارکہ کے خلاف ہوگی اور قرآن و
حدیث کے درمیان تعارض تو ہر گز ممکن نہیں لہٰذا یہ کہنا پڑے گا کہ یہ حدیث ہے ہی
نہیں۔
دیکھئے آیت
فَضَّلَ
اللّٰہُ الْمُجَاہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَانْفُسِہِمْ عَلٰی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً۔(سورۃ
النساء ، آیت نمبر ۹۵)
ﷲ
تعالیٰ نے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے والوں کا بنسبت گھربیٹھنے والوں کے بہت
زیادہ درجہ بلند فرمایا ہے۔
اَلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہ بِاَمْوَالِھِمْ
وَاَنْفُسِہِم اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَاُولٓئِکَ ہُمُ
الْفَائِزُوْنَ۔(سورۃ التوبۃ ، آیت نمبر۲۰)
جو لوگ
ایمان لائے اور ہجرت کی اور اﷲ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا وہ اﷲ کے
نزدیک بہت بڑے درجہ میں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔
اگر اس کو حدیث
تسلیم کرلیا جائے تو اس سے شریعت کے اہم فریضہ جہاد فی سبیل اﷲ کی توہین لازم آتی
ہے۔
علامہ محمد بن
لطفی الضباع فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف بلکہ علامہ عراقی کے فیصلہ کے مطابق باطل
ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلام کے ایک ایسے فریضے کی شان گھٹا رہی ہے جسے رسول اﷲﷺنے
اسلام کی کوہان ،چوٹی قرار دیا (الاسرار المرفوعہ)
ﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺﷺ