اَلْمُجَاہِدُ
مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہٗ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ(ابن ماجہ)
اس
حدیث شریف میں مجاہدہ نفس کو جہاد سے تعبیر فرمایا بلکہ اس سے ایک درجہ بڑھ کر
فرمایا کہ مجاہد تو وہی ہوتا ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے یعنی اصل اور اعلیٰ
درجہ کا جہاد جہاد بالنفس ہے نہ کہ قتال لہٰذا صرف قتال کو جہاد فی سبیل اﷲ
قراردینا درست نہیں ہے۔
حدیث شریف کا
مطلب یہ ہے کہ اصلی اور حقیقی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کو اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور
فرمانبرداری میں ڈالے رکھے۔ یعنی جہاد تب جہاد ہوگا جب اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا کیلئے
ہو اگر کسی اور مقصد کیلئے قتال کیاگیا مثلاً قومیت، عصبیت، وطنیت، ر یا یا شہرت
کی خاطرہو تو یہ ہرگز جہاد نہیں ہوگا۔
گویا اس حدیث
شریف میں اصل قید فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہ ہے جس کا لحاظ رکھاگیا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی
ہے جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے حضرت ابوموسیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک
شخص حضرت پاک ﷺ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ایک شخص غنیمت کیلئے لڑتا
ہے دوسرا شہرت اور ریاکاری کیلئے تیسرا اپنی بہادری دکھانے کیلئے لڑتاہے تو ان میں
سے اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں لڑنے والا کون شمار ہوگا۔
آپ ﷺ نے
فرمایا
مَنْ
قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَافَہُوَفِیْ سَبِیلِ اللّٰہ
(مشکوٰۃ)
کہ جو
شخص اس لئے لڑتا ہے کہ الله تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو تو صرف وہی اﷲ کے راستہ میں
لڑنے والا شمار ہوگا۔