اگر
حکومتِ اسلامیہ کا قیام جہا دکے لئے شرط نہیں تو بھی ایک امیر کا ہو نا تو شرط ہے۔
جب تک ایک امیر نہ ہو گا اسوقت تک جہاد شرعی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ان دنوں مجاہدین
جو کہ مختلف جماعتوں کے اندر بٹے ہوئے ہیں اور ہر ایک کا الگ امیر ہے ان کا جہاد بھی
شرعی جہا د نہیں ۔
جواب نمبر ۱:
یہ ایک ایسا
لغو سوال ہے جسکی بنیاد قرآن ہے نہ حدیث ، فقہ ہے نہ تا ریخ ۔بلکہ یہ سوال ہی
اسلامی تاریخ اور فقہ اسلامی سے ناواقفیت پر مبنی ہے بلکہ اسکے پیچھے ایک خاص چال
کار فرما ہے جسکی طرف عام طور پر ذہن منتقل نہیں ہوتا۔
کفار کے مقابلہ
کرنے کے واسطے
ترکش میں میرے
دوستو تیر ہونا چاہیے
جرات ، خلوص ،
عزمِ مصمم ہے لازمی
کس نے کہا کہ
ایک امیر ہونا چاہیے
ہوا یہ کہ جب
انگریز کے خلاف مختلف علمائےِ حق نے جہاد کا پرچم بلند کیا اور انگریز کو خاک
چاٹنے کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہ آئی۔ تو ا س نے اپنے ایجنٹ مرزا غلام احمد
قادیانی کے ذریعہ سے ایک پمفلٹ شائع کرایا جسکی عبارت یہ تھی کہ “مسلمانو! جہا دتم
پر فرض نہیں کیو نکہ تمہاری قوت کم ہے اور بغیر قوت کے جہاد نہیں ہوتا۔ تمہارا ایک
ا میر بھی نہیں ہے اوربغیر ایک امیر کے جہاد نہیں ہوتا” ۔ یہ ہے اس اعتراض اور
شوشے کی بنیاد جس نے مسلمانوں کے اندر سے جہاد جیسی عظیم طاقت کو کھر چنے کی کوشش
کی ہے ۔
جواب نمبر ۲:
ہم پہلے عرض کر
چکے ہیں کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد ۔ اقدامی جہاد کے لئے
کچھ شرائط ہیں مگر دفاعی جہاد کے لئے تو کوئی شرط نہیں ہے اور اس دور میں دنیا کے
کسی بھی خطے میں اقدامی جہاد نہیں ہے بلکہ صرف دفاعی جہادہے۔
جواب نمبر ۳:
زیادہ مثالوں
کی ضرورت نہیں صرف ۹۱ ویں صدی کو دیکھ لیں ایک ہی وقت پر کتنی اسلامی تحریکیں چل
رہی تھیں اور جہاد ہو رہے تھے۔ مگر امیر تو ہر ایک کا الگ تھا شا ملی کے میدان سے
لیکر امام شامل کے میدان تک اسکی مثالیں موجود ہیں ۔
جواب نمبر ۴ :
اگر یہ شرط لگا
دی جائے توجہاد کا وجود ہی ختم ہو جائے گا ۔کیو نکہ بسا اوقات بلکہ اکثر اوقات
ایسا ہوتا ہے کہ خلافت ِاسلامیہ نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں نے دنیا کے کونے کونے
میں جو جہاد شروع کر رکھے ہیں ،ان کا ایک امیر پر اتفاق تو کجا آپس میں مسلسل
رابطہ تک ممکن نہیں ہوتا ہے ۔
جواب نمبر ۵:
اس کے لئے بھی
حضرت ابو بصیرؓ کا واقعہ مشعل ِراہ ہے کہ انہوں نے
حضرت پاک کی
موجودگی میں اپنا جہاد جاری رکھا ۔حالا نکہ ان کا اپنا الگ امیر تھا اوریہ اس وقت
کے امیر المجاہدین حضرت پاک کی امارت کے اندر جہاد نہیں کر رہے تھے۔ حالانکہ حضرت
پاک کی موجودگی میں دوسرے شخص کا یوں جہاد کرنا بظاہر کتنا عجیب معلوم ہوتا ہے مگر
بات وہی ہے کہ یہاں پر صورت ایسی تھی کہ ایک امیر کے ماتحت جہاد کرنا ممکن ہی نہ
تھا ۔
کیو نکہ اگر وہ
حضرت پاک کے حکم سے کاروائی کرتے تو یہ معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی تھی اور اس کی
حضرت پاک سے العیاذ با ﷲ ہر گز توقع نہ کی جاسکتی تھی اس لئے یہاں ایک ہی صورت
ممکن تھی کہ وہ حضرات الگ تھلگ اپنا الگ امیر مقررکر کے جہاد میں مصروف ر ہیں ۔حق
تعالیٰ ہمیں بھی ہر حال میں جہاد کرنے کی تو فیق دے۔آمین یارَبَّ العٰلَمِین۔
یہ حیلہ چل
نہیں سکتا کبھی سرِ محشر
کہ اہلِ حق کا
جہاں میں کوئی امیر نہ تھا
تجھے تو عقل
تھی تو کیوں نہ شریک ہوا
بتا کہ تیر ے
کماں میں کوئی بھی تیر نہ تھا