جہاد
میں تو سب سے پہلے کفار کو ایمان کی دعوت دینا شرط ہے۔ جبکہ مجاہدین ،کفار کو
بغیرایمان کی دعوت دیئے قتل کر رہے ہیں جو کہ بالکل جائز نہیں،اس صورت میں خلافِ
شریعت جہاد کرنے کی وجہ سے اﷲتعالی کی مدد کیسے آسکتی ہے ؟اور ان کفار کے جہنم میں
جانے کا وبال بھی مجاہدین کے سر پر ہو گا ۔
جواب نمبر ۱ :
یہ بات پہلے
بھی عرض کی جا چکی ہے کہ جہاد کی دو قسمیں ہیں اقدامی اور دفاعی۔کفارکو اقدامی
جہاد میں دعوت دینا شرط ہے اور اس دور میں پوری دنیا میں کہیں بھی اقدامی جہاد
نہیں ہو رہا ۔
جواب نمبر۲:
کفار کواقدامی
جہاد میں بھی ایمان کی دعوت دینا اسوقت شرط ہے جبکہ کفار کو کسی بھی طرح سے اسلام
کا علم نہ ہو،مگر اس دور میں اسلام اتنا عام ہے کہ کفار کو اسلام کے بارے میں خوب
علم ہے بلکہ معلومات کی حد تک تو بعض کفار کو مسلمانوں سے بھی زیادہ علم ہے ۔
طاقت سے اچھا
ہے دعوت کا اہتمام
پر شرط یہ نہیں
ہے دفاعی جہاد کی
کیا ان کو دینِ
َحق کا کوئی علم ہی نہیں
جو وجہ بن رہے
ہیں زمیں پر فساد کی
جواب نمبر ۳ :
کفار کو میدانِ
جنگ میں دعوت دی جاتی ہے تو بھی ہر کافر کو نہیں دی جاتی ،بلکہ صرف کفار کے
سرداروں اور مقتداؤں کو جیسا کہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا فارس اور روم کی تمام
جنگوں میں معمول رہا اور حضرت پاکنے بھی فارس و روم کے بادشاہوں کو ہی دعوت دی تھی
نہ کہ ان کی رعایا کے ہر فرد کو جیسا کہ اس روایت میں تفصیلی طور پر منقول ہے ۔
مثال نمبر ۱:
میں حضرت پاک کاایک
والا نامہ نقل کر دیتا ہوں ۔
بِسْمِ
اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مِنْ
مُّحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللہِاِلٰی کِسْرٰی عَظِیْمِ فَارِسَ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ
اتَّبَعَ الْھُدٰی وَاٰمَنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وشَھِدَاَنْ لَّااِلٰہَ
اِلَّااﷲوَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَاَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہُ وَرَسُوْلَہٗ
اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِاللہِ فَاِنِّی اَنَارَسُوْلُ اللہِ الٰی النَّاسِ کَافَّۃً
لِّیُنْذِرَمَنْ کَانَ حَیًّا وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلٰی الکَافِرِ یْنَ اَسْلِمْ
تَسْلَمْ فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَاِنَّ عَلَیْکَ اِثْمَ الْمَجُوسِ۔( شمائل ترمذی)
بسم اﷲالر حمن
الرحیم اﷲ کے رسول محمد کی طرف سے کسرٰی کے نام جو فارس کا سردار ہے سلامتی اس شخص
کے لئے جو ہدایت اختیار کرے اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس بات کا اقرار کرے
کہ اﷲوحدہ لا شریک لہٗ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں
تجھ کو اﷲکی پکار (یعنی کلمہ )کی دعوت دیتا ہوں اس لئے کہ میں اﷲ کا وہ رسول ہوں
جو تمام جہان کی طرف اسلئے بھیجا گیا ہوں کہ ان لوگوں کو ڈراؤں جن کے دل زندہ
ہیں(یعنی ان میں کچھ عقل ہے )اور تاکہ اﷲکی حجت کافروں پر پوری ہو جائے تو اسلام
لے آ۔ تا کہ سلامتی سے رہے ورنہ تیرے ماننے والے مجوس کا وبال تجھ پر ہو گا۔
ملحوظہ:
شاہ فارس کا
نام پرویز اور لقب کسری تھا اورا سکی طرف حضرت پاک کا خطِ مبارک لے کر جانے والے
صحابی کانام حضرت عبد اﷲبن خذافہ سھمیؓ تھا ۔
مثا ل نمبر ۲ :
حضرت سلیمان
علیہ السلام نے جب ملکہ سبا بلقیس کو دعوت دی تو ان کے الفاظ یہ تھے جسے قرآن کریم
میں اﷲ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے
اِنَّہُ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم اَنْ لَّا تَعْلُوْعَلَیَّ وَأتُوْنِیْ
مُسْلِمِیْنَ
(سورۃ نمل، آیت نمبر ۳۱ )
بے شک اﷲ کے
نام کے ساتھ جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے تم نہ سر کشی کرو مجھ پر اور آؤ
میرے پاس فرما نبردار بن کر ۔
جواب نمبر ۴:
گذشتہ روایات
سے ثابت ہوا کہ دعوت بھی صرف اجمالی دی جاتی تھی نہ کہ تفصیلی۔ اور وہ بھی منت
سماجت کے ساتھ نہیں بلکہ سینہ تا ن کر اور مجاہد انہ لب و لہجہ میں۔تلوار لٹکا کر
،مسلح ہو کر۔
اس لئے ہمارے
حضرت پاک او رصحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کا عمل ہی حجتِ شرعیہ ہے نہ کہ ہماری
عقل ۔یہ الگ بات ہے کہ اگر عقل گناہوں کی وجہ سے ماری نہ جائے تو وہ شریعت کے خلاف
نہیں سوچتی۔
قولِ فیصل :
میں آخر میں اس
ضمن میں فقہ کی مشہور و معتبر کتاب مختصر القدوری کی شرح‘‘ اَلْجَوْھَرَۃُ
النَّیِّرَۃُ’’ کا حوالہ دے کر بات ختم کرتا ہوں جو کہ اس بارے میں قول فیصل کی
حیثیت رکھتی ہے ۔
لَا
یَجُوْزُ اَنْ یُّقَاتِلَ مَنْ لَّمْ تَبْلُغِ الدَّعْوَۃُ فِیْ اِبْتِدَاءِ
الْاِسْلَامِ اَمَّا فِیْ زَمَانِنَا فَلَا حَاجَۃَ اِلٰی الدَّعْوَۃِلِاَنَّ
الْاِسْلَامَ قَدْ فَاضَ وَاشْتَھَرَ فَمَا مِنْ زَمَانٍ اَوْ مَکَانٍ اِلَّا
وَقَدْ بَلَغَہُ بَعْثُ النَّبِیِّ وَدُعَائُہٗ اِلٰی
الْاِسْلَامِ فَیَکُوْنُ الْاِمَامُ مُخَیَّرًابَیْنَ الْبَعْثِ اِلَیْھِمْ وَتَرْکِہٖ
وَلَاَنْ یُّقَاتِلَھُمْ جَھْرًااَوْخُفْیَۃً۔
ابتدا ء ِاسلام
میں بغیر دعوت دئیے کفار کے ساتھ قتال جائز نہیں تھا مگر ہمارے زمانہ میں کفار کو
اسلام کی دعوت کی کوئی ضرورت نہیں ۔کیو نکہ اب ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں پر اسلام
کی دعوت نہ پہنچی ہو ۔اب امام کو اختیار ہے کہ کفار کو دعوت دے یا نہ دے اور اس
بات کا بھی اختیار ہے کہ کفار کے ساتھ قتال آمنے سامنے کرے یا خفیہ طور پر کفار کو
قتل کرے۔
خلاصہ کلام:
یہ ہے کہ یہ
بات دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ اب کفار کو قتل کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دینے
کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔