جہاد
کے لئے جس درجہ کے قوی ایمان کی ضرورت ہے وہ ہمارے اندر نہیں ہے اس لئے پہلے اپنے
ایمان پر محنت کرنی چاہیے۔ جب ایمان بن جائے تو پھر جہاد کریں۔
دیکھئے! حضر ت
زُنیّرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی آنکھیں کفار نے نکال دیں۔ حضرت لَوبینہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا کی چمڑی ادھیڑی گئی اور اس سے بڑھ کر حضرت ُسمَیّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
کے جسم کے نازک حصہ پر ابو جہل بد بخت نے نیزہ مارا پھر انکی دو نوں ٹانگوں کو
اونٹوں کے ساتھ باندھ کر مخالف سمت چلادیا ۔جسم کے دو ٹکڑے ہو گئے مگر ایمان میں
لچک نہ آئی ۔یہ دو چار واقعات میں نے صرف نازک خواتین کے سنائے ہیں کہ ان کاایمان
کس قدر مضبوط تھا اور کتنی بڑی مصیبتیں برداشت کر گئیں۔مردوں کے واقعات سے تا ریخ
بھری پڑی ہے ۔حضرت بلال ؓ،حضرت خباب ؓ، حضرت یا سرؓ کے واقعات تو بہت مشہور ہیں۔اس
لئے العیاذباﷲیہ ان مقدس شخصیات پر بہتا ن اور الزام ہے کہ انکے ایمان بننے میں
تیرہ سال لگ گئے۔
جواب نمبر ۳:
قابل غور بات
یہ ہے کہ اگر جہاد کے لئے ایمان کامل کی ضرورت ہے تو اسکی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے
کہ جہاد میں مشکلات اور مصائب بہت زیادہ ہوتے ہیں، جن کو برداشت کرنے کے لئے ایمان
ِکامل کی ضرورت ہے ۔ مکہ میں اس اعتبار سے یہ مصائب بہت بڑھے ہوئے تھے۔ جہاد میں
تو مقابلہ کیا جاتا ہے اور آدمی اگر تکلیف سہتا ہے تو تکلیف دیتا بھی ہے ۔ اگر
زخمی ہوتاہے تو زخمی کرتابھی ہے۔ اگر قتل ہوتا ہے تو قتل کرتابھی ہے۔قرآن کریم میں
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ۔
اِنْ
تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ
۔وَتَرْجُوْنَ مِنَ اﷲِمَالَا یَرْجُوْنَ،وَکَانَ اﷲُعَلِیْمًاحَکِیْمَا ۔
تر جمہ
:
اگر(
مسلمانو) تم تکلیف اٹھاتے ہو تو وہ (کفار )بھی تکلیف
اٹھاتے ہیں جیسا کہ تم تکلیف اٹھا تے ہو اور تم اﷲ سے اس چیز کی امید رکھتے ہو جس
کی وہ امید نہیں رکھتے ، اور اﷲ جاننے والا ، حکمت والا ہے ۔( سورۃ النساء ، آیت
نمبر ۱۰۴)
مکہ میں تو
اسکی بھی اجازت نہ تھی بلکہ صرف مصیبت برداشت کرنے کا حکم تھا۔جب مصائب بہت بڑھ
گئے تو ہجرت کا حکم مل گیا ۔اس لئے مکہ میں صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے ایمان پر
محنت نہ تھی، بلکہ کفار اور مشرکین پر محنت ہوتی تھی اور ان کواسلام کے حلقہ میں
لانے کی فکراور کوشش ہوتی تھی ۔مگرکم علم لوگوں نے کس طرح پورے نقشہ کو بدل دیا
اور دین کے حلیہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ۔اﷲ تعالی ہم سب کو معاف فرمائے ۔
:جواب نمبر۴
چلئے ہم مان
لیتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ایمان پر تیرہ سال محنت ہوئی
پھر جہاد کا حکم نازل ہوا ۔تو جو صحا بہ رضی اﷲ عنہم مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے
ان کے ایمان پر اتنی محنت کیوں نہ کی گئی ؟اور ان کو بغیر ایمان پر محنت کرنے کے
کیوں جہاد کے میدانوں میں کھڑا کر دیاگیا۔العیاذباﷲ۔
آج تو مجاہدین
پر الزام ہے کہ یہ بغیر ایمان پر محنت کے بچوں کو میدان جہاد میں لے جاتے ہیں اور
مروا دیتے ہیں۔ تو میرے بھائیو !مدینہ منورہ میں جو لوگ مسلمان ہوئے اور بغیر
ایمان کی محنت کے وہ جہاد میں گئے اور شہید ہو گئے تو انکی العیاذباﷲ،بقول آپ کے
ایمان ناقص ہونے کے ساتھ میدان جہاد میں چلے جانے کی ذمہ داری کس کے سر پر ہو گی
؟جبکہ حضرت پاک تو خوشخبریاں دے رہے ہیں۔ دیکھئے صرف ایک
واقعہ،ایک شخص حضرت پاک کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اﷲ !میں
پہلے مسلمان ہوجاؤں یا پہلے جہاد کروں؟ حضرت پاک نے فرمایا کہ پہلے
مسلمان ہو جاؤ، پھر جہاد کرو اس نے لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ پڑھا اور
میدان میں کود گیا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ حضرت پاک نے خود اسکو قبر میں
رکھا اور قبر سے جلدی جلدی باہر تشریف لائے ۔صحابہ رضی اﷲ عنہم ڈر گئے کہ کہیں
اسکو عذاب تو نہیں ہو رہا۔ حضرت پاک نے فرمایا ،نہیں ایسی
کوئی بات نہیں۔ میں اس لئے جلدی باہر آگیا ہو ں کہ اسکی حوریں وہاں پہنچ گئی تھیں
۔پھر آپ نے فرمایا
‘‘عَمِلَ
قَلِیْلًاوَّاُجِرَکَثِیْرًا’’۔کہ
اس شخص نے عمل تھو ڑا کیا مگر اجر بہت زیادہ حاصل کیا ۔(بخاری شریف)
اب ذرا غور
فرمائیے نہ تو اس شخص کے ایمان پر محنت ہوئی بلکہ اس کو نماز تک کا موقع نہ ملا
اور میدان جنگ میں لڑتا ہوا جام ِ شہا دت نو ش کر گیا پھر دربارِ نبوت سے یہ
بشارات کیسی اور کیوں ہیں؟
جواب نمبر ۵:
اگر اس دور میں
ایمانی کمزوری کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہو نے کا مفروضہ تسلیم کر لیا جائے تو
نعوذباﷲ،اﷲتعالیٰ پر یہ الزام ہو گا کہ ایسی چیز کاحکم دے دیا جس پر عمل ممکن ہی
نہیں ۔کیو نکہ جب حضرت پا ک کی زیارت اور صحبت بلکہ حضرت پاک کے پیچھے نماز پڑھنے
کے باوجود بھی ایمان بننے کے لئے تیرہ سال کا عرصہ درکار ہے تو پھر ہمارا ایمان تو
بن ہی نہیں سکتا پھر جہاد کو فرض کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ اوراﷲتعالیٰ نے ا
لعیاذباﷲ امت پر ظلم کیا ہے کہ اس چیز کا حکم دیا جسکی امت میں صلاحیت ہی نہیں ہے
۔
جواب نمبر ۶:
آخر ایمان کے
کامل ہونے کا کوئی معیار بھی ہے کہ جس پر پہنچ کر ایمان کامل اور مکمل ہو اور جہاد
کے حکم پر عمل کیا جا سکے !!!یا قیامت تک امت کے تما م افراد بغیر ایمان کے کامل
ہونے کے ہی مرتے رہیں گے؟
جواب نمبر ۷:
حقیقت یہ ہے کہ
جہاد فی سبیل اﷲ ایک ایسا فریضہ ہے کہ اس پر عمل کرنے سے ناقص الایمان لوگوں کا
ایمان بھی کامل ہوتا ہے اور اس سے ایمان بڑھتا ہے ۔کیو نکہ اس میں اﷲ تعالیٰ کی
مدد و نصرت کے واقعات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ شہدا کے خون کی خوشبو ایمان کو معطّر کر
دیتی ہے ۔جس کا جی چاہے آئے اور اسکا مشاہدہ کرے ۔اور تو اور قرآن کریم نے اعلان
فرمایا ہے کہ جہاد میں تو صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا ایمان بھی بڑھتا تھا ۔
اَلَّذِیْنَ
قَالَ لَھُمْ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْالَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ
فَزَادَھُمْ اِیْمَانًاوَّقَالُوْاحَسْبُنَااﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (آل عمران ،
آیت نمبر ۱۷۳)
تر جمہ
:
جن کو کہا
لوگوں نے کہ مکہ والے آدمیوں نے جمع کیا ہے سامان تمھارے مقابلہ کو سو تم ان سے
ڈرو ۔اور زیادہ ہو ا ایمان ان کا ۔اور بولے کافی ہے ہم کو اﷲاور کیا خوب کارساز ہے
وہ۔( تفسیر عثمانی)
وَلمَّا
رَاٰی الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ھٰذَامَا وَعَدَنَااﷲُوَرَسُوْلُہٗ
وَصَدَقَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ وَمَازَادَھُمْ اِلَّا اِیْمَانًا وَ تَسْلِیْمًا
ترجمہ:
اور جب دیکھا
مسلمانوں نے فوجیں تو بولے کہ یہ وہی ہے جوو عدہ دیا تھا اﷲ نے ہم کو اور اسکے
رسول نے ۔سچ کہا اﷲ نے اور اس کے رسول نے۔ اور ان کا
اور بڑھ گیا یقین اور اطاعت کرنا ۔ (سورۃالاحزاب، آیت نمبر ۲۲)
نہ کیجئے
انتظار اے دوست ایمانِ مکمل کا
کہ خو د ایمان
کی تکمیل ہو جائے گی میدان میں
وہ جس کی جستجو
میں سارا ہی عالم ہے سر گر داں
اک ایسے پھول
کی تحصیل ہو جائے گی میدان میں